Tuesday, December 14, 2021

”آزاد اور کُھلا بحرہند و بحرالکاہل” وزیر خارجہ اینٹونی جے بلنکن کی تقریر

Department of State United States of America

یہ ترجمہ امریکی دفترخارجہ کی جانب سے ازراہ نوازش پیش کیا جارہا ہے۔



امریکی دفتر خارجہ
ترجمان کا دفتر
14 دسمبر، 2021

وزیر خارجہ اینٹونی جے بلنکن کی تقریر
یونیورسیٹاس انڈونیشیا
جکارتہ، انڈونیشیا

وزیر خارجہ بلنکن: تمام لوگوں کو صبح بخیر۔ یہاں آپ سب کے درمیان موجود ہونا ایک شاندار موقع ہے۔ ڈاکٹر کوسومیاتی، میرا اس قدر اچھا تعارف کرانے پر آپ کا بے حد شکریہ۔ تاہم اس سے بھی بڑھکر میں صحت عامہ میں بہتری لانے کے لیے کئی دہائیوں پر مشتمل خدمات، ڈاکٹروں اور نرسوں کی نئی نسل کو تعلیم و تربیت دینے اور یونیورسٹی کے سکول آف پبلک ہیلتھ کی پہلی خاتون ڈین کے طور پر خدمات کی انجام دہی پر آپ کا مشکور ہوں۔ تولیدی صحت پر آپ کی تحقیق سے لے کر انڈونیشیا کی کووڈ ٹاسک فورس میں قائدانہ کردار تک اپنے لوگوں کے حوالے سے آپ کی لگن واقعتاً متاثر کن ہے اور میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ (تالیاں)

یہاں موجود سب لوگوں کو صبح بخیر۔ سلامت پاگی۔ جکارتہ میں دوبارہ آ کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔ میں گزشتہ حکومت میں نائب وزیر خارجہ کی حیثیت سے دو موقعوں پر یہاں آ چکا ہوں اور میں جنوب مشرقی ایشیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت کا دوبارہ دورہ کرنے کا موقع ملنے کا منتظر تھا۔

یہاں موجود طلباء سے مجھے یہ کہنا ہے کہ مجھے توقع ہے کہ آپ کو کیمپس پر واپس آنا اچھا لگا ہوگا۔ میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے بہت سے طلبہ کافی عرصے سے گھروں میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور دوبارہ کمرہ جماعت میں واپسی کے منتظر ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ہم نے آپ کو آج یہاں دوبارہ اکٹھے ہونے کا ایک بہانہ فراہم کیا ہے۔ ڈاکٹر، میں جانتا ہوں کہ آپ اور آپ کی ٹاسک فورس طلباء کو یونیورسٹیوں میں واپس آتا دیکھنا چاہتے ہیں اور مجھے اندازہ ہے کہ سبھی اس کام کے کتنے منتظر ہیں۔

میں یہاں موجود ہوں، ہم یہاں موجود ہیں کیونکہ بحرہند وبحرالکاہل میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا اکیسویں صدی میں دنیا کی سمت متعین کرنے میں کسی بھی دوسرے خطے کے مقابلے میں کہیں زیادہ نمایاں کردار ہو گا۔

بحرہند و بحرالکاہل کرہ ارض پر سب سے زیادہ تیزرفتار ترقی کرنے والا خطہ ہے۔ دنیا کی معیشت کے 60 فیصد کا تعلق اسی خطے سے ہے اور گزشتہ پانچ سال میں دنیا کی دو تہائی معاشی ترقی یہیں ہوئی ہے۔ دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی اسی خطے میں رہتی ہے اور 15 سب سے بڑی معیشتوں میں سے سات کا تعلق اسی خطے سے ہے۔

یہ ایک شاندار انتہائی متنوع خطہ ہے جہاں 3,000 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں اور یہاں دو بڑے سمندروں کے آر پار اور تین براعظموں میں بہت سے عقائد کے ماننے والے لوگ پھیلے ہوئے ہیں۔

انڈونیشیا جیسے ایک ہی ملک میں اس قدر زیادہ تنوع پایا جاتا ہے کہ اسے کسی ایک شکل میں نہیں دیکھا جا سکتا اور اس ملک کا نعرہ بھی 'بھینیکا ٹُنگل اِکا' ہے جس کا مطلب 'تنوع میں اتحاد' ہے جو کسی بھی امریکی شخص کو خاصا مانوس لگتا ہے۔ امریکہ میں ہم اس کو 'ای پلوریبس اُونم' کہتے ہیں جس کا مطلب ہے 'بہت سوں میں سے ایک'۔ یہ دونوں نظریے ایک جیسے ہیں۔

امریکہ طویل عرصہ سے بحرہند و بحرالکاہل کے خطے کا ملک رہا ہے، ہے اور رہے گا۔ یہ ایک جغرافیائی حقیقت ہے۔ بحر الکاہل کے ساتھ ہماری ساحلی ریاستوں سے لے کر گوام تک پھیلے ہمارے علاقے ایک جغرافیائی حقیقت ہیں۔ اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کا اظہار اس خطے میں دو صدیوں سے قائم ہمارے تجارتی اور دیگر تعلقات سے ہوتا ہے۔

آج امریکہ کے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے نصف کا تعلق بحرہند و بحرالکاہل کے خطے سے ہے۔ ہماری قریباً ایک تہائی برآمدات اسی خطے میں ہوتی ہیں اور یہ امریکہ میں 900 ارب ڈالر کی براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کا ذریعہ ہے اور اس سے ہماری تمام 50 ریاستوں میں لاکھوں نوکریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ امریکہ سے باہر تعینات ہماری فوج کی سب سے بڑی تعداد اسی خطے میں ہے جو یہاں امن اور سلامتی کو یقینی بنانے پر مامور ہے جس کا خطے کی خوشحالی میں اہم کردار ہے اور اس سے ہم سب کو فائدہ پہنچتا ہے۔

یقیناً ہم اپنے لوگوں کے ذریعے بھی ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں جن کے باہمی تعلقات گزشتہ کئی نسلوں پر محیط ہیں۔ امریکہ میں 24 ملین سے زیادہ ایشیائی امریکی رہتے ہیں جن میں سفیر سنگ کِم بھی شامل ہیں جو گزشتہ تین دہائیوں سے امریکہ کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

وباء سے پہلے امریکہ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بحرہند و بحرالکاہل کے خطے سے تعلق رکھنے والے 775,000 طلباء و طالبات زیرتعلیم تھے۔ یہاں یونیورسیٹاس انڈونیشیا میں آپ کے امریکی ہم جماعت ان لاکھوں امریکیوں میں شامل ہیں جو تعلیم حاصل کرنے، کام کرنے اور رہنے کے لیے یہاں آئے ہیں جن میں وہ شخص بھی شامل ہے جو بعد میں ہمارا صدر بنا۔

انڈونیشیا کی زبان کا ایک محاورہ ہے جس کے بارے میں مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ یہاں بچوں کو نوعمری ہی سے سکھایا جاتا ہے۔ وہ محاورہ یہ ہے کہ 'ہمارے دو کان ہیں مگر منہ صرف ایک ہے'۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں بولنے یا کوئی عمل کرنے سے پہلے سننا چاہیے۔ موجودہ امریکی انتظامیہ کے پہلے سال کے دوران ہم بحرہند و بحرالکاہل کے خطے کے لوگوں کی بہت سی باتیں سن چکے ہیں تاکہ اس خطے اور اس کے مستقبل کے بارے میں آپ کے تصورات سے آگاہی حاصل کر سکیں۔

ہم نے اس خطے سے تعلق رکھنے والے بہت سے رہنماؤں کا اپنے ملک میں خیرمقدم کیا ہے جن میں پہلے دو غیرملکی رہنماؤں کی صدر بائیڈن نے اس وقت میزبانی کی جب انہوں نے صدارت کا عہدہ سنبھالا تھا۔ ان میں جاپان اور جنوبی کوریا کے سربراہان شامل تھے۔ اس کےعلاوہ ہم نے اس خطے کے ممالک کے وزرائے خارجہ کا خیرمقدم بھی کیا۔ مجھے دفتر خارجہ میں ان کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوا جن میں وزیر خارجہ رینتو بھی شامل تھے۔ ہم آپ کے خطے کا دورہ کر چکے ہیں جن میں نائب صدر ہیرس، وزیر دفاع آسٹن، وزیر تجارت ریمانڈو اور کابینہ کے بہت سے دیگر ارکان شامل ہیں۔ میری ٹیم میں شامل دفتر خارجہ کے متعدد اعلیٰ سطحی حکام بھی یہاں آ چکے ہیں۔

صدر نے کثیرملکی رہنماؤں کی سطح کی بہت سی کانفرنسوں میں شرکت کی ہے جن کا انعقاد اے پی ای سی، امریکہ۔ آسیان اور مشرقی ایشیائی کانفرنسیں اور کواڈ جیسے اداروں کے زیراہتمام ہوا۔ میں امریکہ کے ساتھ بھارت، جاپان اور آسٹریلیا بھی شامل ہیں۔ میں خود ساتھی وزرائے خارجہ کے بہت سے اجلاسوں کا حصہ تھا جن میں میکانگ۔ امریکہ شراکتی وزارتی اجلاس کی میزبانی بھی شامل ہے۔ صدر بائیڈن بیرون ملک بحرہند و بحرالکاہل کے رہنماؤں سے بھی مل چکے ہیں جن میں سی او پی 26 کے دوران گلاسگو میں صدر جوکووی کے ساتھ ایک نہایت مفید ملاقات بھی شامل ہے۔

لیکن ہم صرف رہنماؤں کو ہی نہیں سن رہے۔ خطے بھر میں قائم ہمارے سفارت خانوں اور قونصل خانوں میں ہمارے سفارت کار طلبہ، کارکنوں، ماہرین تعلیم اور کاروباری افراد سمیت زندگی کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خیالات غور سے سنتے ہیں۔

اگرچہ یہ غیرمعمولی طور پر متنوع خطہ ہے جہاں تمام ممالک کے الگ الگ مفادات ہیں اور سبھی ایک دوسرے سے الگ تصورات کے حامل ہیں لیکن بحرہند و بحرالکاہل کے ممالک کی اور ہماری سوچ بڑی حد تک ہم آہنگ ہے۔

اس خطے کے لوگ اور حکومتیں اپنے لوگوں کے لیے مزید بہتر مواقع چاہتی ہیں۔ انہیں اندرون ملک، خطے کے دوسرے ممالک اور پوری دنیا کے ساتھ رابطے کے مزید مواقع درکار ہیں۔ وہ اس وباء جیسے بحرانوں سے نمٹنے کی بہتر تیاری چاہتے ہیں۔ وہ امن اور اسحکام چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کی اس خطے میں پہلے سے بڑھ کر موجودگی ہو اور وہ خطے کے معاملات میں پہلے سے زیادہ مضبوط کردار ادا کرے۔ سب سے بڑھ کر وہ اسے ایک ایسا خطہ بنانا چاہتے ہیں جو پہلے سے زیادہ آزاد اور پہلے سے زیادہ کُھلا ہو۔

اسی لیے آج میں آپ کے سامنے یہی مشترکہ مقصد بیان کرنا چاہوں گا اور یہ بتاؤں گا کہ ہم باہم مل کر کیسے اسے ایک حقیقت کا روپ دیں گے۔ اس حوالے سے پانچ بنیادی چیزیں ہیں جن پر میں توجہ مرکوز کرنا چاہوں گا۔

سب سے پہلی بات یہ کہ ہم آزاد اور کھلے بحرہند و بحرالکاہل کو فروغ دیں گے۔

ہم ایک آزاد اور کُھلے بحرہند و بحرالکاہل کے بارے میں بہت سی باتیں کرتے ہیں لیکن عام طور پر ہم یہ واضح نہیں کرتے کہ اس سے ہماری کیا مراد ہے۔ آزادی اپنا مستقبل خود بنانے اور اپنے علاقے اور اپنے ملک کے معاملات میں اختیار رکھنے کا نام ہے خواہ آپ کسی بھی پس منظر کے حامل کیوں نہ ہوں۔ کُھلا پن فطری طور پر آزادی سے جنم لیتا ہے۔ آزاد جگہیں نئی معلومات اور نقطہائے نظر کے اظہار کے لیے کھلی ہوتی ہیں۔ وہ مختلف ثقافتوں، مذاہب اور طرز زندگی کے لیے کھلی ہوتی ہیں۔ ایسی جگہوں پر تنقید، غوروفکر اور تجدید کی ممانعت نہیں ہوتی۔

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک آزاد اور کھلا بحرہند و بحرالکاہل چاہتے ہیں تو اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ انفرادی سطح پر لوگ اپنی روزمرہ زندگی گزارنے اور کھلے معاشروں میں رہنے کے لیے آزاد ہوں گے۔ اس سے ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ریاستی سطح پر تمام ممالک اپنی مرضی کی راہ اختیار کرنے اور اپنی مرضی کے شراکت دار منتخب کرنے میں آزاد ہوں گے۔ اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ علاقائی سطح پر دنیا کے اس خطے میں مسائل سے نمٹنے کے لیے کھلے پن سے کام لیا جائے گا اور قوانین شفافیت پر مبنی ہوں گے اور ان کا منصفانہ اطلاق ہو گا، اشیا اور لوگوں کی ایک سے دوسری جگہ، سائبر سپیس میں اور کھلے پانیوں میں نقل و حرکت آزادانہ ہو گی۔

دنیا میں سب سے زیادہ تحرک کے حامل اس خطے کو یقینی طور پر جبر سے آزاد رکھنا اور اسے سب کے لیے قابل رسا بنانا ہم سب کے مفاد میں ہے۔ یہ خطے بھر کے لوگوں کے فائدے میں ہے۔ اس سے امریکہ کے لوگوں کو فائدہ ہو گا کیونکہ تاریخ بتاتی ہے کہ جب یہ وسیع خطہ آزاد اور کھلا رہا تو امریکہ پہلے سے زیادہ محفوظ اور خوشحال ہوا۔ اسی لیے ہم اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پورے خطے میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کریں گے۔

ہم خطے بھر میں انسداد بدعنوانی اور شفافیت کے لیے کام کرنے والے گروہوں، تحقیقاتی صحافیوں اور تھنک ٹینک کی صورت میں کام کرنے والے اداروں سے تعاون جاری رکھیں گے۔ سری لنکا میں ایڈووکیٹا انسٹی ٹیوٹ ایسا ہی ایک ادارہ ہے۔ ہمارے تعاون سے اس انسٹی ٹیوٹ نے بینکوں اور فضائی کمپنیوں جیسے ریاستی ملکیت میں کام کرنے والے ایسے اداروں کی ایک پبلک رجسٹری بنائی ہے اور ان میں اصلاحات کی تجاویز دی ہیں جو بھاری خسارے میں چل رہے ہیں۔

ہم حکومتوں میں وکٹر سوٹو جیسے شراکت دار ڈھونڈ رہے ہیں۔ وہ فلپائن میں پاسگ شہر کے میئر ہیں۔ وکٹر نے بدعنوانی کے واقعات کی اطلاع دینے کے لیے قانون ساز اسمبلی کے ارکان کے لیے شب و روز کام کرنے والی ہاٹ لائن قائم کی ہے۔ اس کی بدولت سرکاری ٹھیکوں کے اجراء کا عمل مزید شفاف ہو گیا ہے اور مقامی سطح پر کام کرنے والی تنظیموں کو شہر کے وسائل خرچ کرنے کے معاملے میں اپنی رائے دینے کا موقع ملا ہے۔ وہ عالمی سطح پر بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والے اس پہلے گروپ کا حصہ ہیں جس کا اعلان دفتر خارجہ نے اس سال کے اوائل میں کیا تھا۔

ہم اپنے ساتھی جمہوری ممالک کے بہترین تجربات سے سیکھتے رہیں گے۔ گزشتہ ہفتے صدر بائیڈن کی جانب سے بلائے گئے جمہوریت کے سربراہی اجلاس کے پیچھے یہی تصور کارفرما تھا جس میں صدر جوکووی نے بھی خطاب کیا۔ درحقیقت وہ اس کانفرنس میں خطاب کرنے والے پہلے رہنما تھے۔ اسی طرح بالی ڈیموکریسی فورم بھی ایسا ہی ایک پلیٹ فارم ہے جس کا انڈونیشیا نے چودھویں مرتبہ انعقاد کیا ہے جہاں مجھے بھی بات کرنے کا موقع ملا۔

ہم ایسے رہنماؤں کے خلاف بھی کھڑے ہوں گے جو اپنے لوگوں کے حقوق کا احترام نہیں کرتے جیسا کہ ہم اس وقت برما میں دیکھ رہے ہیں۔ ہم اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر برما کی حکومت پر زور دیتے رہیں گے کہ وہ بلا امتیاز، تشدد بند کرے، ناجائز طور پر گرفتار کیے گئے تمام لوگوں کو رہا کرے، لوگوں کو ملک میں بلاروک و ٹوک رسائی دے اور تمام فریقین کی نمائندگی پر مبنی جمہوریت کی جانب برما کی راہ بحال کرے۔

آسیان نے چار نکاتی اتفاق رائے تیار کیا ہے اور یہ حکومت پر زور دیتا ہے کہ وہ مسئلے کے ایک ایسے پرامن حل کے لیے تمام فریقین کے ساتھ تعمیری بات چیت میں شامل ہو جس میں برما کے عوام کی خواہشات کا احترام کیا جائے۔ یہ ایک ایسا ہدف ہے جس کے حصول کی کوشش ہم ترک نہیں کریں گے۔

آزادی اور کھلے پن کو فروغ دینے کا ہمارا ایک اور طریقہ ایسے لوگوں کے خلاف ایک کھلے، باہم متعامل، محفوظ اور قابل اعتماد انٹرنیٹ کا تحفظ کرنا ہے جو انٹرنیٹ کو مزید بند کرنے، اسے شکستہ کرنے اور اسے غیرمحفوظ بنانے کے لیے فعال طور سے مصروف عمل ہیں۔ ہم ان اصولوں کے تحفظ کے لیے اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کریں گے اور ایسے محفوظ اور قابل اعتماد نظام بنانے میں مدد دیں گے جو اس کی بنیاد ہیں۔ اس سال کے اوائل میں مون۔ بائیڈن رہنما کانفرنس میں جمہوریہ کوریا اور امریکہ نے نئی آنے والی ٹیکنالوجی بشمول محفوظ 5جی اور 6 جی نیٹ ورک کے حوالے سے تحقیق و ترقی پر سرمایہ کاری کے لیے 3.5 ارب ڈالر سے زیادہ مالی وسائل مختص کرنے کا اعلان کیا۔

اس حوالے سے آخری بات یہ کہ ہم قانون کی بنیاد پر قائم نظام کے تحفظ کے لیے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ کام کریں گے۔ یہ وہ نظام ہے جو ہم نے اس خطے کو یقینی طور پر کھلا اور قابل رسا بنانے کے لیے باہم ملک کر کئی دہائیوں کی محنت سے تشکیل دیا ہے۔

میں ایک بات کی وضاحت کرنا چاہوں گا: قوانین کی بنیاد پر قائم نظام کے دفاع کا مقصد کسی ملک کو نیچا دکھانا نہیں۔ اس کے بجائے اس کا مقصد تمام ممالک کا جبر اور خوف سے آزاد ہو کر اپنی راہ خود منتخب کرنے کے حق کا تحفظ کرنا ہے۔ یہ امریکہ کے زیر اثر خطے یا چین کے زیراثر خطے کے درمیان مقابلے بازی کا معاملہ نہیں ہے۔ بحرہند و بحرالکاہل بذات خود ایک خطہ ہے۔ ہمارا مقصد ان حقوق اور سمجھوتوں کو قائم رکھنا ہے جن کی بدولت یہ خطہ اور دنیا انتہائی پرامن اور خوشحال دور دیکھ چکے ہیں۔

اسی لیے شمال مشرقی ایشیا سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا تک اور دریائے میکانگ سے لے کر بحرالکاہل کے جزائر تک بیجنگ کے جارحانہ اقدامت کے بارے میں بہت زیادہ تشویش پائی جاتی ہے۔ کھلے سمندروں پر اپنا حق جتلا رہا ہے، ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والی اپنی کمپنیوں کو اعانتی رقومات دے کر کھلی منڈیوں کو خراب کر رہا ہے، دوسرے ممالک کی برآمدات وصول کرنے سے انکار کر رہا ہے یا اپنے سے متضاد پالیسیوں کے حامل ممالک کے ساتھ کاروباری معاہدے ختم کر رہا ہے اور غیرقانونی، بلا اطلاع اور بے ضابطہ ماہی گیری میں ملوث ہے۔ خطے بھر کے ممالک اس طرزعمل میں تبدیلی چاہتے ہیں۔

ہم بھی یہی چاہتے ہیں اور اسی لیے ہم بحیرہ جنوبی چین میں جہاز رانی کی آزادی یقینی بنانے کا عزم کیے ہوئے ہیں جہاں بیجنگ کے جارحانہ اقدامات سے سالانہ تین کھرب ڈالر کی تجارتی نقل و حمل کو خطرات لاحق ہیں۔

یہاں یہ بات یاد رکھنا اہم ہے کہ ان تین کھرب ڈالروں سے دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں کا روزگار اور بہبود وابستہ ہے۔ جب کھلے سمندروں میں تجارتی سامان نہیں گزر سکتا تو کسان اپنی پیداوار دوسرے ممالک کو نہیں بھیج سکتے، کارخانے اپنی مائیکرو چِپس ایک سے دوسری جگہ نہیں پہنچا سکتے اور ہسپتالوں کو زندگی بچانے والی ادویات کی فراہمی رک جاتی ہے۔

پانچ سال قبل ایک عالمی ٹریبونل نے ایک متفقہ فیصلہ دیا جس میں بحیرہ جنوبی چین میں جہاز رانی سے متعلق چین کے غیرقانونی اور توسیع پسندانہ دعووں کو عالمگیر قانون کے منافی کہہ کر مسترد کیا گیا تھا۔ عالمی قانون کی رو سے اس فیصلے کی پابندی ضروری ہے۔ ہم اور بحیرہ جنوبی چین کے دعویدار ممالک سمیت دیگر ممالک ایسے طرزعمل کے خلاف مزاحمت جاری رکھیں گے۔ اسی لیے آبنائے تائیوان میں امن و استحکام سے ہمارا دائمی مفاد وابستہ ہے جو ہمارے دیرینہ وعدوں سے ہم آہنگ ہے۔

دوسری بات یہ کہ ہم اس خطے میں اور اس سے پرے مضبوط تر روابط بنائیں گے۔ ہم جاپان، جمہوریہ کوریا، فلپائن اور تھائی لینڈ کے ساتھ اپنے معاہداتی اتحادوں کو مزید موثر بنائیں گے۔ یہ روابط طویل عرصے سے خطے میں امن، سلامتی اور خوشحالی کی بنیاد چلے آ رہے ہیں۔ ہم ان اتحادیوں کے مابین بھرپور تعاون ممکن بنانے میں مدد بھی دیں گے۔ ہم نے امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا پر مشتمل سہ فریقی تعاون کو مضبوط کر کے اور آسٹریلیا اور برطانیہ کے ساتھ سلامتی کے شعبے میں تعاون سے متعلق ایک نیا تاریخی معاہدہ کر کے یہی کچھ کیا ہے۔ ہم اپنے اتحادیوں کو اپنے شراکت داروں سے جوڑنے کے طریقے ڈھونڈیں گے جیسا کہ ہم نے کواڈ کو پہلے سے زیادہ موثر بنا کر کیا ہے۔ ہم مضبوط اور خودمختار آسیان کے ساتھ اپنی شراکت کو پہلے سے زیادہ مضبوط بنائیں گے۔

آسیان کی مرکزیت کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے تصور میں ہم آہنگی اور بحرہند و بحرالکاہل کے حوالے سے آسیان کے نقطہ نظر کو مدنظر رکھتے ہوئے خطے کے معاملات میں اپنی شمولیت کو بھرپور بنانے کے لیے آسیان کے ساتھ اور اس کے ذریعے کام جاری رکھیں گے۔

اکتوبرمیں صدر بائیڈن نے متعدد اہم شعبوں میں آسیان کے ساتھ ہمارے تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے 100 ملین ڈالر سے زیادہ مالی وسائل فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان شعبوں میں صحت عامہ اور خواتین کو بااختیار بنائے جانے کے اقدامات بھی شامل ہیں۔ صدر آنے والے مہینوں میں آسیان کے رہنماؤں کو ایک کانفرنس کے لیے امریکہ مدعو کریں گے جس میں باہمی تزویراتی شراکت کو مزید مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال ہو گا۔

ہم خطے میں دیگر ممالک کے ساتھ اپنی تزویراتی شراکتوں کو بھی مضبوط بنا رہے ہیں جن میں سنگاپور، ویت نام، ملائشیا اور یقیناً انڈونیشیا بھی شامل ہیں۔ میرے اس دورے کی یہی بنیادی وجہ ہے۔

ہم اپنے لوگوں کے مابین تعلقات کو بھی مزید مضبوط بنا رہے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا میں رہنماؤں کی نئی نسل کو بااختیار بنانے کے پروگرام 'وائی ایس ای اے ایل آئی' کے 150,000 سے زیادہ ارکان ہیں اور ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اس حوالے سے آخری بات یہ ہے کہ ہم بحرہند و بحرالکاہل میں اپنے تعلقات کو اس خطے سے پرے بالخصوص یورپ میں اتحادوں اور شراکتوں کے ایک بے مثل نظام کے ساتھ جوڑنے کے لیے کام کریں گے۔ یورپی یونین نے حال ہی میں بحرہند و بحرالکاہل کے حوالے سے اپنی حکمت عملی کا اجراء کیا ہے جو بڑی حد تک اس کے خطے کے بارے میں ہمارے تصور سے ہم آہنگ ہے۔ نیٹو میں ہم اپنے تزویراتی تصور کو اس طرح بہتر بنا رہے ہیں کہ اس سے بحرہند و بحرالکاہل کی بڑھتی ہوئی اہمیت کا اظہار ہو۔ اسی طرح ہم موسمیاتی بحران کے سکیورٹی کی صورتحال پر مرتب ہونے والے اثرات جیسے نئے خطرات سے نمٹنے پر کام کر رہے ہیں۔ ہم اپنے شراکت داروں کے ساتھ اپنے کام میں آسیان کی مرکزیت کو بنیادی اہمیت دے رہے ہیں۔ ہم نے چند دن پہلے ہی یہ کیا ہے جب جی7 کے وزراء برطانیہ میں ملے اور ان کی آسیان سے تعلق رکھنے والے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی۔

ہم اس حوالے سے جو کچھ کر رہے ہیں اس کی ایک سادہ سی وجہ ہے کہ اس سے ہمیں کسی بھی مسئلے پر قابو پانے، کسی بھی موقع سے فائدہ اٹھانے اور کسی بھی مقصد کے لیے کام کرنے کی غرض سے وسیع تر اور انتہائی موثر اتحادوں کا ساتھ میسر آتا ہے۔ ہم اپنے مشترکہ مفادات کی تکمیل کے لیے جتنے زیادہ ممالک کو اکٹھا کریں گے ہم اتنے ہی زیادہ مضبوط ہوں گے۔

تیسری بات یہ کہ ہم وسیع البنیاد خوشحالی کو فروغ دیں گے۔ امریکہ نے بحرہند و بحرالکاہل میں بیرون ملک براہ راست سرمایہ کاری کی مد میں پہلے ہی ایک کھرب ڈالر مہیا کیے ہیں۔ اس خطے نے ہم پر واضح کر دیا ہے کہ وہ ہم سے مزید اقدامات کا خواہاں ہے۔ ہم اس کا مطالبہ پورا کرنا چاہتے ہیں۔ صدر بائیڈن کی ہدایت پر ہم ایک جامع بحرہند و بحرالکاہل معاشی ڈھانچہ تیار کر رہے ہیں جس کا مقصد تجارت اور ڈیجیٹل معیشت، ٹیکنالوجی، تجارتی سامان کی ترسیل کے مضبوط نظام، ماحول سے کاربن کے خاتمے اور صاف توانائی کے فروغ، بنیادی ڈھانچے، کارکنوں سے متعلق ضوابط اور مشترکہ دلچسپی کے دیگر شعبوں میں مشترکہ مقاصد کا حصول ممکن بنانا ہے۔

ہماری سفارت کاری اس حوالے سے بنیادی کردار ادا کرے گی۔ ہم ایسے مواقع ڈھونڈیں گے جو امریکی کمپنیاں اپنے طور پر تلاش نہیں کر سکتیں اور ان کے لیے اپنی مہارتوں اور اپنے سرمائے کو نئی جگہوں اور نئے شعبوں میں لانا آسان بنائیں گے۔ ہمارے سفارتی عہدیدار اور بحرہند و بحرالکاہل بھر میں پھیلے ہمارے سفارت خانے پہلے ہی اس معاملے میں رہنما کردار ادا کر رہے ہیں اور ہم ان کی صلاحیت میں اضافہ کریں گے تاکہ وہ اس سلسلے میں مزید کام کر سکیں۔ خطے سے تعلق رکھنے والے 2,300 سے زیادہ کاروباروں اور حکومتی رہنماؤں نے اس سال میرے ساتھ بحرہند و بحرالکاہل بزنس فورم میں شرکت کی جو ہم نے انڈیا کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر منعقد کیا تھا اور وہاں ہم نے نجی شعبے میں قریباً 7 ارب ڈالر کی مالیت کے منصوبوں کا اعلان کیا۔

ہم بڑھتی ہوئی ڈیجیٹل معیشت کے قوانین متشکل کرنے کے لیے اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کریں گے۔ اس میں ڈیٹا پرائیویسی اور سکیورٹی جیسے امور پر خاص توجہ دی جائے گی۔ اس سلسلے میں یہ مدنظر رکھا جائے گا کہ یہ قوانین ہماری اقدار کے عکاس ہوں اور ان سے ہمارے لوگوں کے لیے نئے مواقع کھلیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ہم ان قوانین کو متشکل نہیں کریں گے تو یہ کام دوسرے کریں گے۔ اس کا قوی امکان ہے کہ وہ یہ سب کچھ اس انداز میں کریں گے جس سے ہمارے مشترکہ مفادات یا ہماری مشترکہ اقدار کو فائدہ نہیں پہنچے گا۔

نومبر میں اے پی ای سی میں صدر بائیڈن نے اس حوالے سے واضح تصور پیش کیا کہ ہم اس خطے میں مستقبل کے حوالے سے ایک مشترکہ راہ کیسے نکال سکتے ہیں۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے حوالے سے انہوں نے ایک کھلے، باہم متعامل، قابل اعتماد اور محفوظ انٹرنیٹ کی ضرورت پر بات کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے سائبر سکیورٹی اور ڈیجیٹل معیشت کے ضوابط تیار کرنے میں ہماری بھرپور دلچسپی کا تذکرہ بھی کیا۔ یہ ضوابط ہماری تمام معیشتوں کو مستقبل کے مسائل کا مقابلہ کرنے میں مدد دیں گے۔ جب امریکہ کی تجارتی نمائندہ، ٹائی اور میں نے نومبر میں اے پی ای سی کے وزارتی اجلاس میں اپنے وفد کی مشترکہ قیادت کی تو ہم نے یہ یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا کہ ٹیکنالوجی کو ایک آزاد اور کھلے بحرہند و بحرالکاہل کے مفاد میں ہونا چاہیے۔

ہم منصفانہ اور مضبوط بنیادوں پر تجارت کو فروغ بھی دیں گے۔ یہ آسیان سنگل ونڈو کی بات ہے جو خطے بھر میں کسٹم کلیئرنگ سے متعلق واحد خودکار نظام کے لیے امریکہ کے تعاون سے چلنے والا منصوبہ ہے۔ اس نظام نے تجارت کو مزید شفاف اور محفوظ بنا کر اسے باترتیب صورت دی ہے جس سے کاروباروں کے لیے لاگت اور صارفین کے لیے قیمتوں میں کمی آئی ہے۔ کسٹم کے نظام کو کاغذوں سے نکال کر ڈیجیٹل صورت دینے سے لاک ڈاؤن کے دوران بھی سرحد پار تجارت کو رواں رکھنا ممکن ہوا ہے۔

وباء کے پہلے سال میں اس پلیٹ فارم پر دوسروں سے زیادہ متحرک ممالک کی تجارتی سرگرمی میں 20 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ یہ وہ وقت تھا جب دوسرے طریقوں سے سرحد پار کی جانے والی بیشتر تجارت میں کمی واقع ہو رہی تھی۔ اکتوبر میں امریکہ۔ آسیان کانفرنس کے موقع پر صدر بائیڈن نے سنگل ونڈو کے لیے امریکہ کی جانب سے مزید مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ ہم تجارتی اشیا کی ترسیل کے نظام مزید محفوظ اور مضبوط بنانے کے لیے اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب وباء میں دیکھ چکے ہیں کہ یہ نظام کس قدر کمزور ہیں اور ماسک کی کمی اور بندرگاہوں پر مائیکروچِپس کے ڈھیر لگے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس نظام میں پڑنے والا خلل کس قدر تباہ کن ہوسکتا ہے۔

ہم تجارتی اشیا کی ترسیل کے نظام میں رکاوٹوں کو دور کرنے اور انہیں مستقبل کے حادثات کے خلاف مزید مضبوط بنانے کے لیے عالمی برادری کو اکٹھا کرنے کی کوششوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ صدر بائیڈن نے تجارتی سامان کی ترسیل کے سلسلوں کو مضبوط بنانے کے حوالے سے رہنماؤں کی ایک کانفرنس بلائی۔ نائب صدر ہیرس نے خطے میں اپنے دوروں کے دوران ہونے والی ملاقاتوں میں اس موضوع کو بات چیت کا مرکز بنایا۔ وزیر تجارت ریمانڈو نے اپنے حالیہ دورے میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، سنگاپور اور ملائشیا کے ساتھ مل کر اس مسئلے پر قابو پانے کے اقدامات کیے۔ امریکہ کی تجارتی نمائندے، ٹائی نے تجارتی سامان کی ترسیل کے نظام سے متعلق بین الادارتی ٹاسک فورس قائم کی اور جاپان، جنوبی کوریا اور انڈیا کے دورے میں اس مسئلے کو اجاگر کیا۔ نئے سال میں وزیر تجارت جینا ریمانڈو اور میں باہم مل کر ترسیل کے بین الاقوامی فورم میں دنیا بھر کی حکومتوں اور نجی شعبے کو اکٹھا کریں گے تاکہ ان مسائل پر قابو پایا جا سکے۔ دنیا بھر میں زیادہ تر پیداوار اور تجارت کے مرکز کی حیثیت سے بحرہند و بحرالکاہل کا خطہ اِن کوششوں کا مرکز ہو گا۔

اس ضمن میں آخری بات یہ ہے کہ ہم بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے خلا پُر کرنے میں مدد کریں گے۔ جب موجودہ بنیادی ڈھانچے اور مستقبل کی ضرورتوں کی بات ہوتی ہے تو اس خطے میں اور دنیا بھر میں بہت سی کمی دکھائی دیتی ہے۔ بندرگاہیں، سڑکیں، بجلی کے گرڈ اور براڈ بینڈ عالمگیر تجارت، کاروبار، باہمی رابطوں، مواقع اور خوشحالی کی بنیاد ہیں۔ بحرہند و بحرالکاہل کی جامع ترقی میں ان کی لازمی اہمیت ہے۔ لیکن ہم بحرہند و بحرالکاہل میں سرکاری حکام، صنعتوں، مزدوروں اور عام لوگوں کی جانب سے درست انداز میں بنیادی ڈھانچے کی عدم فراہمی سے متعلق بڑھتے ہوئے خدشات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ خدشات ایسے بنیادی ڈھانچے سے متعلق ہیں جو مبہم اور بدعنوانی پر مبنی طریقہائے کار کے ذریعے بنایا جائے یا ایسی غیرملکی کمپنیوں کا تعمیر کردہ ہو جو اپنے کارکن ساتھ لاتی ہیں، میزبان ملک کے وسائل حاصل کرتی ہیں، ماحول کو آلودہ کرتی ہیں اور مقامی لوگوں کو قرض دار بنا دیتی ہیں۔

بحرہند و بحرالکاہل کے ممالک ایک بہتر بنیادی ڈھانچہ چاہتے ہیں۔ لیکن ان میں بہت سے ممالک سمجھتے ہیں کہ اس کی دستیابی بہت مہنگی ہے یا وہ بُرے معاہدوں کا دباؤ محسوس کرتے ہیں جن کی شرائط سرمایہ کاری کرنے والے ممالک نے طے کی ہوتی ہیں یا اس کے لیے ان کے ساتھ سرے سے کوئی معاہدے ہی نہیں کیے گئے ہوتے۔ اسی لیے ہم اعلیٰ معیار اور ضوابط کے حامل ایسے بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر کے لیے خطے کے ممالک کے ساتھ کام کریں گے جن کے یہ لوگ حقدار ہیں۔ درحقیقت ہم یہ کام پہلے ہی سے کر رہے ہیں۔

اسی ہفتے ہی آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ مل کر ہم نے وفاقی ریاستہائے مائیکرونیشیا، کیریباٹی اور نارو کے ساتھ ایک شراکت قائم کرنے کا اعلان کیا جس کا مقصد بحر الکاہل کے ان ممالک کو انٹرنیٹ کے ذریعے روابط بہتر بنانے میں مدد دینے کے لیے زیرسمندر ایک نئی تار بچھانا ہے۔ 2015 سے کواڈ کے رکن ممالک نے اس خطے میں بنیادی ڈھانچے کے لیے سرکاری معاونت سے مالیاتی وسائل کی فراہمی کی مد میں 48 ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم دی ہے۔ ان وسائل کی مدد سے 30 سے زیادہ ممالک میں دیہی ترقی سے قابل تجدید توانائی تک ہزاروں منصوبوں پر کام ہوا ہے۔ اس سے کروڑوں لوگوں کو فائدہ پہنچا ہے۔

کواڈ نے مزید سرمایہ کاری لانے کے لیے حال ہی میں بنیادی ڈھانچے سے متعلق رابطہ گروپ بنایا ہے اور یہ بنیادی ڈھانچے سمیت بہت سی مشترکہ ترجیحات پر جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کے ساتھ شراکت کا متمنی ہے۔ امریکہ اس سے کہیں بڑھ کر تعاون کرے گا۔ ہم نے جون میں اپنے جی7 شراکت داروں کے ساتھ مل کر 'دنیا کی بہتر انداز میں بحالی' کا پروگرام شروع کیا تھا جس کے تحت ہم آنے والے برسوں میں شفاف اور پائیدار مالیات کے حوالے سے سیکڑوں ارب ڈالر اکٹھے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہم نے آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ مل کر بلیو ڈاٹ نیٹ ورک شروع کیا جس کا مقصد اعلیٰ معیار کے بنیادی ڈھانچوں کے ایسے منصوبوں کی تصدیق کرنا ہے جو جی20، او ای سی ڈی اور دیگر تنظیموں کی جانب سے بنائے گئے پیمانوں پر پورا اترتے ہوں اور مزید سرمایہ کاروں کو اپنی جانب راغب کر سکیں۔

چوتھی بات یہ ہے کہ ہم بحرہند و بحرالکاہل کو مزید مضبوط بنانے میں مدد کریں گے۔ کووڈ۔19 وباء اور موسمیاتی بحران نے اس کام کی ہنگامی ضرورت واضح کر دی ہے۔ وباء نے خطے بھر میں لاکھوں جانیں لیں جن میں یہاں انڈونیشیا میں 143,000 سے زیادہ مرد، عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ اس وباء نے کارخانوں کی بندش سے لے کر سیاحت میں تعطل تک بڑے پیمانے پر معاشی نقصان بھی کیا۔

امریکہ ہر قدم پر اس خطے کے لوگوں کی مدد کے لیے موجود رہا جبکہ ہم اندرون ملک بھی اس وباء کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے دنیا بھر میں تقسیم کی گئی محفوظ و موثر ویکیسن کی 300 ملین خوراکوں میں سے 100 ملین بحرہند و بحرالکاہل کے خطے کے ممالک کو مہیا کی گئیں۔ ان میں 25 ملین سے زیادہ خوراکیں یہاں انڈونیشیا کو بھیجی گئیں۔ آئندہ برس کے اختتام تک ہم دنیا بھر میں ویکسین کی 1.2 ارب سے زیادہ خوراکیں عطیہ کر چکے ہوں گے۔ ہم نے اس خطے کو زندگیاں بچانے کے لیے مزید امداد کے طور پر 2.8 ارب سے زیادہ مالی وسائل مہیا کیے ہیں جن میں انڈونیشیا میں ذاتی تحفظ کے سازوسامان سے لے کر ہسپتالوں میں طبی مقاصد کے لیے آکسیجن کی فراہمی کی غرض سے دیے گئے77 ملین ڈالر تک شامل ہیں۔ ہم یہ امداد کسی شرط کے بغیر مفت دے رہے ہیں۔ کوویکس کے ذریعے بیشتر عطیات دے کر ہم نے یہ یقینی بنایا ہے کہ ان کی تقسیم سیاسی بنیادوں پر نہ ہو بلکہ یہ منصفانہ طور سے اور ضرورت کے مطابق ہو۔

اسی دوران ہم وباء کو ختم کرنے کے لیے اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں کواڈ ممالک کی ویکسین کی فراہمی سے متعلق شراکت کا اہم کردار ہے۔ ہم ویکسین کے لیے مالی وسائل کی فراہمی، اس کی تیاری، تقسیم اور جلد از جلد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ویکسین لگانے کے لیے باہم مل کر کام کر رہے عمل ہیں۔ بہت سے ممالک انفرادی طور پر ہمارا ساتھ دینے کے لیے آگے آ رہے ہیں۔ انڈیا نے حال ہی میں یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ 2022 کے آخر تک ویکسین کی مزید 5 ارب خوراکیں تیار کرے گا۔ جمہوریہ کوریا اور تھائی لینڈ بھی ویکسین کی تیاری کی کوششیں تیز کر رہے ہیں۔

ہم نجی شعبے کو بھی اپنے ساتھ ملا رہے ہیں۔ گزشتہ مہینے میری جانب سے بلائے گئے ایک وزارتی اجلاس میں ہم نے 'گلوبل کووڈ کور' کے نام سے ایک اتحاد بنایا۔ یہ چند معروف کمپنیوں کا اتحاد ہے جو ترقی پذیر ممالک میں ویکسین پہنچانے کے لیے مہارتیں، ذرائع اور صلاحیتیں مہیا کرے گا جس میں لوگوں کو ویکسین لگانے تک کے مرحلے میں درکار انتظامی و انصرامی امور بھی شامل ہیں اور لوگوں کو ویکسین لگانے میں اس کی خاص اہمیت ہے۔ ہم دنیا بھر میں یہی دیکھ رہے ہیں کہ ویکسین کی پیداوار میں تو اضافہ ہو گیا ہے لیکن آخری مرحلے میں درپیش مشکلات کے باعث انہیں لوگوں کو لگانے کی رفتار کم ہے۔ ایسی انتظامی مشکلات پر قابو پایا جانا ضروری ہے اور ہماری توجہ اسی مسئلے پر مرکوز ہے۔

اسی دوران وائرس کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہم بحرہند و بحرالکاہل اور دنیا بھر میں صحت کے نظاموں کی بہتر طور سے بحالی پر بھی کام کر رہے ہیں تاکہ مستقبل میں وباء کی روک تھام، نشاندہی اور اس کے خلاف بروقت اقدامات ممکن بنائے جا سکیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں یہ کام کیسے ہونا ہے۔ امریکہ اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کئی دہائیوں سے اس خطے میں صحت کے نظاموں کو مضبوط بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ صرف آسیان ممالک میں ہم نے گزشتہ 20 سال میں صحت عامہ پر 3.5 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے وسائل خرچ کیے ہیں۔ ہم نے صحت عامہ کے نظام میں نمایاں بہتری لانے اور خطے کے ممالک سے گہرے تعلقات قائم کرنے سمیت یہاں بہت کچھ کیا ہے۔

آسیان کے لیے ہماری مدد کے طور پر صدر بائیڈن نے حال ہی میں اعلان کیا کہ ہم امریکہ۔ آسیان طبی مستقبل کے اقدام کے لیے 40 ملین ڈالر مہیا کریں گے اور اس سے مشترکہ تحقیق، صحت کے نظاموں کو مضبوط بنانے اور صحت کے شعبے میں پیشہ ور لوگوں کی نئی نسل تیار کرنے کا کام تیزسے تیزتر ہوگا۔

ہم آسیان کا صحت عامہ سے متعلق ہنگامی رابطہ نظام تیار کرنے میں بھی مدد دے رہے ہیں۔ اس سے خطے کے ممالک کو مستقبل میں صحت کے حوالے سے ہنگامی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے اقدامات مربوط بنانے میں مدد ملے گی۔ امریکہ میں بیماریوں کی روک تھام اور ان پر قابو پانے کے مرکز کا جنوب مشرقی ایشیا سے متعلق پہلا علاقائی دفتر پہلے ہی ان کوششوں میں مدد دے رہا ہے۔ ہم نے یہ دفتر اس موسم گرما میں ہنوئی میں کھولا ہے۔

موسمیاتی بحران بھی یقیناً ایک اور ایسا عالمی مسئلہ ہے جس پر ہمیں اکٹھے قابو پانا ہے۔ پورے بحرہند و بحرالکاہل میں لوگ پہلے ہی اس کے تباہ کن اثرات محسوس کر رہے ہیں۔ دنیا کی 70 فیصد قدرتی آفات اسی خطے میں آتی ہیں اور 2019 میں خطے میں 90 ملین سے زیادہ لوگ موسمیاتی آفات سے متاثر ہوئے۔ اس سے اگلے سال بحرالکاہل کے ساحل پر ہماری ریاست کیلی فورنیا کے جنگلوں میں آگ لگنے کے پانچ بڑے واقعات پیش آئے جن کا شمار تاریخ میں ایسے چھ سب سے بڑے واقعات میں ہوتا ہے۔

اب خطے میں سب سے زیادہ کاربن خارج کرنے والے بہت سے ممالک کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت کا احساس ہو گیا ہے جیسا کہ ہم سی او پی 26 میں ان کے وعدوں کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ گلاسگو میں بحرہند و بحرالکاہل کے 15 ممالک بشمول انڈونیشیا نے 'گلوبل میتھین پلَیج' پر دستخط کیے۔ اس اقدام کا مقصد آئندہ دہائی میں میتھین گیس کے اخراج میں 30 فیصد تک کمی لانا ہے۔ اگر سب سے زیادہ کاربن خارج کرنے والے تمام ممالک ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں تو اس سے عالمی حدت میں جتنی کمی آئے گی وہ ہر بحری جہاز کو سمندر سے نکالنے اور ہر ہوائی جہاز کو فضا سے نیچے اتارنے کے نتیجے میں حاصل ہونے والے نتائج سے کہیں زیادہ ہو گی۔

تاہم موسمیاتی مسئلے کو صرف خطرات کی نظر سے دیکھنا غلطی ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کرہ ارض پر ہر ایک ملک کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانا اور موسمیاتی تبدیلی کے ناگزیر اثرات کا مقابلہ کرنے کی تیاری کرنا ہے۔ اس حوالے سے نئی ٹیکنالوجی اور نئی صنعتیں بھی نئی اور اچھی اجرتوں والی نوکریاں تخلیق کرنے کا ایسا موقع فراہم کرتی ہیں جو نسلوں میں ایک بار آتا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ موقع بحرہند و بحرالکاہل سے ہو کر گزرتا ہے اور ہم اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے پہلے ہی اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں ہی امریکہ نے اس خطے میں قابل تجدید توانائی کے شعبے میں 7 ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ اس معاملے میں اپنی کوششیں بڑھاتے ہوئے ہم اپنی شراکتوں کے منفرد مجموعے سے کام لے رہے ہیں۔ ان میں کثیرملکی ادارے اور وکالتی گروہ، کاروبار اور فلاحی ادارے، محققین اور تکنیکی ماہرین شامل ہیں۔

'کلین ایج' اقدام کو دیکھیے جو ہم اس ماہ شروع کر رہے ہیں۔ اس اقدام کے تحت امریکہ کی حکومت اور نجی شعبے کی مہارتوں اور اختراع کو اکٹھا کر کے خطے بھر میں ماحول دوست توانائی کے حصول کے اقدامات کو فروغ دینے میں مدد مہیا کی جائے گی۔ صدر بائیڈن کی جانب سے حال ہی میں امریکہ۔ آسیان موسمیاتی مستقبل کے اقدام کے لیے دیے جانے والے 20 ملین ڈالر یا گزشتہ ہفتے امریکہ کی انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ فنانس کارپوریشن کی جانب سے انڈیا کی ریاست تامل ناڈو میں شمسی توانائی کے حصول کے آلات تیار کرنے والے مرکز کی تعمیر میں مدد کے لیے دیے جانے والے 500 ملین ڈالر بھی اسی کا حصہ ہیں۔

امریکہ کی کمپنی فرسٹ سولر کی جانب سے بنائے جانے والی اس فیکٹری میں سالانہ 3.3 گیگا واٹ توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت ہو گی۔ اتنی توانائی دو ملین سے زیادہ گھروں کو بجلی مہیا کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس مرکز کی تعمیر اور اسے چلانے سے انڈیا میں ہزاروں نوکریاں پیدا ہوں گی جن میں بیشتر خواتین کو ملیں گی اور امریکہ میں بھی سیکڑوں نئی نوکریاں پیدا ہوں گی۔ یہ امریکہ کی جانب سے انڈیا کو 2030 تک 500 گیگا واٹ قابل تجدید توانائی کی صلاحیت حاصل کرنے کے پرعزم ہدف تک پہنچنے میں مدد دینے کی محض ایک مثال ہے جس کے بدلے میں دنیا کو موسمیاتی تباہی روکنے میں مدد ملے گی۔

اب ہم جانتے ہیں کہ اگر ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی سے نوکریوں میں بہت بڑا اضافہ ہو بھی جائے اور ہمیں یقین ہے کہ ایسا ہو گا تو تب بھی یہ تمام نوکریاں ان کارکنوں کو نہیں ملیں گی جنہوں نے اس تبدیلی کے دوران پرانی صنعتوں اور پرانے شعبوں میں اپنی نوکریاں کھوئی ہیں۔ اس لیے یہ ہماری ذمہ داری ہے اور ہم نے سبھی کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔

پانچویں اور آخری بات یہ ہے کہ ہم بحرہند و بحرالکاہل کی سلامتی کو بہتر بنائیں گے۔ خطرات نئی صورت اختیار کر رہے ہیں اس لیے سلامتی سے متعلق ہمارے طریقہائے کار کو بھی ان کے مطابق تبدیل ہونا ہو گا۔ ہمیں متشدد شدت پسندی سے لے کر غیرقانونی ماہی گیری اور انسانی سمگلنگ تک بہت سے مسائل پر قابو پانے کے لیے غیرفوجی شعبے میں سلامتی سے متعلق قریبی تعاون درکار ہو گا۔ ہم ایک ایسی حکمت عملی اختیار کریں گے جو ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ ہماری قومی طاقت کے تمام ذرائع یعنی سفارت کاری، فوج اور انٹیلی جنس کو مزید قریبی طور سے مربوط کرے گی۔ ہمارے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اسے "مربوط ڈر" کہتے ہیں۔

اس کا مطلب ہماری طاقتوں کو مزید مضبوط بنانا ہے تاکہ ہم امن قائم رکھ سکیں جیسا کہ ہم نے اس خطے میں کئی دہائیوں تک کیا ہے۔ ہم بحرہند و بحرالکاہل میں تصادم نہیں چاہتے۔ اسی لیے ہم شمالی کوریا کے ساتھ سنجیدہ اور پائیدار سفارت کاری کے خواہاں ہیں جس کا حتمی مقصد جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنا ہے۔ ہم شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل پروگراموں سے لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک باضابطہ اور عملی طریقہ کار سے کام لیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ خطرات کے خلاف قوت مزاحمت کا وسیع تر توازن بھی مضبوط بنائیں گے۔

اسی لیے صدر بائیڈن نے صدر شی سے گزشتہ مہینے کہا تھا کہ یہ یقینی بنانا ہماری مشترکہ اور اہم ذمہ داری ہے کہ دونوں ممالک کے مابین مسابقت کسی تصادم میں تبدیل نہ ہونے پائے۔ ہم اس ذمہ داری کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں کیونکہ ایسا کرنے میں ناکامی ہم سبھی کے لیے تباہ کن ہو گی۔

14 فروری، 1962 کو امریکہ کے اٹارنی جنرل رابرٹ ایف کینیڈی اِس یونیورسٹی میں خطاب کے لیے آئے۔ اس موقع پر انہوں نے دونوں ممالک کے عوام کی دائمی جدوجہد کا تذکرہ کیا جس کو ان کے مطابق نوجوانوں نے آگے بڑھانا تھا جیسا کہ آپ لوگ ہیں۔ انہوں نے ایک ایسی بات کی جو ان کے بھائی اور اس وقت امریکہ کے صدر جان ایف کینیڈی نے دنیا سے متعلق ہمارے تصور کی بابت کہی تھی۔ صدر کینیڈی کا کہنا تھا، "ہمارا بنیادی مقصد بدستور وہی ہے کہ ایک پُرامن دنیا اور ایسی آزاد و خودمختار ریاستوں کا اکٹھ قائم کرنا جو دوسروں کی آزادی کو خطرے میں ڈالے بغیر اپنے مستقبل اور اپنے نظام کا انتخاب کرنے میں آزاد ہوں۔"

صدر کینیڈی کی جانب سے یہ الفاظ کہے جانے سے 70 سال بعد جو کچھ بھی تبدیل ہوا ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان کی یہ سوچ ہماری موجودہ سوچ سے کس قدر ہم آہنگ ہے۔ میں مشکور ہوں کہ مجھے یہاں اس یونیورسٹی میں طلبہ اور نوجوانوں کی قیادت سے متعلق ہمارے بہت سے پروگراموں کے فارغ التحصیل افراد کے سامنے اس ہم آہنگی کی وجہ بیان کرنے کا موقع ملا ہے۔ وہ وجہ یہ ہے کہ آج بھی آپ ہی وہ لوگ ہیں جو اس تصور کو آگے لے کر جائیں گے۔ ایسا کرتے ہوئے آپ کو علم ہونا چاہیے کہ امریکہ سمیت پورے بحرہند و بحرالکاہل میں لوگوں کی امیدیں اور مقدر آپ کی امیدوں اور مقدروں کے ساتھ وابستہ ہیں اور وہ ہمارے اس مشترکہ خطے بحرہند و بحرالکاہل کو مزید کھلا اور مزید آزاد بنانے میں آپ کے ثابت قدم شریکِ کار ہوں گے۔

میری بات سننے کا بے حد شکریہ۔ (تالیاں)


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/a-free-and-open-indo-pacific/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔


This email was sent to stevenmagallanes520.nims@blogger.com using GovDelivery Communications Cloud on behalf of: Department of State Office of International Media Engagement · 2201 C Street, NW · Washington, DC · 20520 GovDelivery logo

No comments:

Page List

Blog Archive

Search This Blog

USAO - Missouri, Western News Update

Offices of the United States Attorneys   You are subscribed to USAO - Missouri, We...