Thursday, March 4, 2021

وزیرخارجہ انٹونی جے بلنکن کی تقریر “امریکی عوام کے لیے خارجہ پالیسی” سے اقتباسات

Department of State United States of America

یہ ترجمہ امریکی دفترخارجہ کی جانب سے ازراہ نوازش پیش کیا جارہا ہے۔



امریکی محکمہ خارجہ
واشنگٹن، ڈی سی
3 مارچ 2021

* * * *

جب صدر بائیڈن نے مجھے یہ خدمت کرنے کا کہا تو انہوں نے میرے اس بات کو سمجھنے کو یقینی بنایا کہ میرا کام آپ کے لیے کامیابی سے کام کرنا ہے – یعنی آپ کی زندگیوں کو مزید محفوظ بنانا، آپ کے لیے اور آپ کے خاندان کے لیے مواقع پیدا کرنا، اور اُن عالمگیر بحرانوں سے نمٹنا جو آپ کے مستقبلوں کی روز افزوں صورت گری کرتے ہیں۔

* * * *

آج بعد میں، صدر بائیڈن ہماری قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی میں اُس "عبوری تزویراتی رہنمائی" کہلانے والی کے بارے میں بتائیں گے جو ہماری قومی سلامتی کے اداروں کے لیے ابتدائی سمت کا تعین کرتی ہے تاکہ وہ آنے والے کئی مہیںوں میں قومی سلامتی کی ایک جامع حکمت عملی تیار کرتے ہوئے فوری طور پر کام شروع کر سکیں۔ یہ عالمی منظر نامہ، جیسا کہ بائیڈن انتظامیہ دیکھتی ہے، پیش کرتی ہے اور ہماری خارجہ پالیسی کی ترجیحات کی وضاحت کرتی ہے اور ہم اپنے وقت کے چیلنجوں سے نمٹنے اور مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے امریکہ کی طاقتوں کی کس طرح تجدید کریں گے۔

لہذا وزیر خارجہ کی حیثیت سے اپنی پہلی بڑی تقریر میں، میں آپ کو بتاؤں گا کہ امریکی سفارت کاری صدر کی حکمت عملی کو کس طرح عملی جامہ پہنائے گی۔

* * * *

ہم نے چند ایک سادہ سے سوالات پوچھ کر بائیڈن انتظامیہ کے لیے خارجہ پالیسی کی ترجیحات طے کی ہیں۔ امریکی محنت کشوں اور اُن کے گھرانوں کے نزدیک ہماری خارجہ پالیسی کیا معانی رکھتی ہے؟ ہمیں ملک کے اندر اپنے آپ کو مضبوط تر بنانے کے لیے دنیا بھر میں کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے؟ ہمیں دنیا میں اپنے آپ کو مضبوط تر بنانے کے لیے ملک کے اندر کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے؟

اِن سوالوں کے جواب وہ نہیں ہیں جو2017 یا 2009 میں تھے۔ جی ہاں، ہم میں سے کئی ایک جو بائیڈن انتظامیہ میں خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ صدر اوباما کی انتظامیہ میں بھی فخریہ طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں جس میں صدر بائیڈن بھی شامل ہیں۔ اور ہم نے دنیا میں امریکہ کی قیادت کو بحال کرنے کی خاطر بہت سے اچھے کام کیے تاکہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے والے معاہدے اور آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے دنیا کو یکجا کرنے جیسی سخت محنت سے حاصل کی گئی سفارتی کامیابیوں جیسی کامیابیاں حاصل کی جا سکیں۔ ہماری خارجہ پالیسی اس لمحے کے لیے اسی طرح موزوں ہے جیسا کہ کسی خارجہ پالیسی کو ہونا چاہیے۔ مگر یہ ایک مختلف زمانہ ہے، لہذا ہماری حکمت عملی اور سوچ بھی مختلف ہے۔ ہم صرف وہیں سے کام نہیں شروع کر رہے جہاں ہم نے چھوڑا تھا، بلکہ ہم دنیا کو نئی نظروں سے بھی دیکھ رہے ہیں۔

* * * *

… امریکی قیادت اور امریکہ کے ساتھ کام کرنا اہمیت رکھتا ہے۔ ہم اپنے دوستوں سے یہ بات سن رہے ہیں۔ ہمارے دوست خوش ہیں کہ ہم واپس آگئے ہیں۔ ہمیں یہ اچھا لگے یا نہ لگے مگر دنیا اپنے آپ کو منظم نہیں کرتی۔ جب امریکہ پیچھے ہٹتا ہے تو عموماً دو چیزوں میں سے ایک چیز رونما ہوتی ہے: یا کوئی اور ملک ہماری جگہ لینے کی کوشش کرتا ہے، مگراُس طریقے سے نہیں جس سے ہمارے مفادات اور اقدار کو فروغ ملتا ہو۔ یا، آگے کوئی نہیں آتا – اور پھر ہم افراتفری اور اُن تمام خطرات سے دوچار ہو جاتے ہیں جو یہ پیدا کرتی ہے۔ دونوں میں کوئی بھی صورت، امریکہ کے لیے اچھی نہیں۔

ایک اور پائیدار اصول جس کی ہمیں ضرورت ہے یہ ہے کہ ہمیں ملکوں کے تعاون کرنے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ آپ کی زندگیوں کو متاثر کرنے والا کوئی ایک بھی ایسا عالمی چیلنج نہیں ہے جس سے تنہا کوئی ملک نمٹ سکتا ہو – حتی کہ امریکہ کی طرح کوئی طاقتور ملک بھی نہیں نمٹ سکتا۔ اور کوئی ایسی اونچی یا مضبوط دیوار نہیں ہے جو دنیا کو بدلنے والی تبدیلیوں کو روک سکے۔

* * * *

صدر بائیڈن نے سفارت کاری کے ذریعے قیادت کرنے کا عہد کیا ہے کیونکہ آج کے چیلنجوں سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہی ہے۔ اسی طرح، ہم امریکہ کے دنیا کی طاقت ور ترین مسلح افواج کے رکھنے کو جاری رکھنا یقینی بنائیں گے۔ موثر سفارت کار بننے کی ہماری اہلیت کا انحصار بڑی حد تک ہماری افواج کی طاقت پر ہے۔

اور ہم جو بھی کام کریں گے، اُس میں ہم نہ صرف قلیل مدتی مسائل پر پیشرفت کرتے دکھائی دیں گے، بلکہ ان کی بنیادی وجوہات سے نمٹتے اور اپنی طویل مدتی طاقت کی بنیاد رکھتے ہوئے بھی دکھائی دیں گے۔ جیسا کہ صدر کا کہنا ہے، نہ صرف تعمیرنو کرنا، بلکہ بہتر تعمیر نو کرنا۔

* * * *

پہلا، ہم کووڈ19 پر قابو پائیں گے اور صحت کی عالمی سلامتی کو مضبوط بنائیں گے۔

ایک برس سے اوپر ہوگیا ہے کہ یہ وبا ہماری زندگیوں پر حاوی ہے۔ اس کو شکست دینے کے لیے ہمیں، دنیا بھر میں حکومتوں، سائنس دانوں، کاروباروں، اور کمیونٹیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مکمل طور پر محفوظ نہیں ہوگا جب تک دنیا کی اکژیت میں اس کے خلاف مدافعت پیدا نہیں ہوجاتی کیونکہ جب تک یہ وائرس پھیلتا رہے گا اس وقت تک اس کی نئی اقسام پیدا ہوتی رہیں گیں اور امریکہ میں پھیلتی رہیں گیں۔ اس لیے ہمیں اس کے خلاف حفاظتی ٹیکے لگانے کی عالمی کوششوں کو آگے بڑہانے کے لیے اپنے شراکت داروں کے ساتھ قریبی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ، ہمیں یہ یقینی بنانے کی ضرورت بھی ہے کہ ہم صحیح فیصلے کریں اور صحت کی عالمی سلامتی میں صحیح سرمایہ کاریاں کریں جن میں وبائی امراض کا پیشگی پتہ لگانے، روک تھام کرنے، اور روکنے کے وسائل، اور درست اور بروقت معلومات دوسروں تک پہنچانے کا ایک پختہ عالمی عزم شامل ہے تاکہ اس طرح کا بحران دوبارہ کبھی بھی نہ پیدا ہو سکے۔

دوسرا، ہم معاشی بحران کو ختم اور ایک زیادہ مستحکم، مشمولہ عالمی معیشت کی تعمیر کریں گے۔

* * * *

ہمیں عالمی معیشت کو سنبھالنے کے لیے کام کرتے ہوئے، ملک کے اندر درست پالیسیاں منظور کرنے کی ضرورت ہے جس کی ایک مثال صدر کا وہ امدادی پیکیج ہے جس کے لیے وہ سخت محنت کر رہے ہیں۔ اس سے امریکی عوام کو حقیقی معنوں میں فوائد حاصل ہوں گے۔ میرا مطلب صرف یہ ہی نہیں کہ بڑی جی ڈی پی یا ترقی کرتا ہوا بازارِ حصص وجود میں آئیں؛ بہت سے امریکی گھرانوں کے لیے یہ اقدامات زیادہ معانی نہیں رکھتے۔ میرا مقصد اچھے روزگار، اچھی آمدنیاں، اور محنت کشوں اور کنبوں کے لیے گھریلو اخراجات میں کمی لانا ہے۔

ہم مشکل سے سیکھے گئے اسباق کی روشنی میں آگے بڑھیں گے۔ ہم میں سے کچھ لوگوں نے آزاد تجارتی معاہدوں کے حق میں دلیلیں دیں کیونکہ ہمیں یقین تھا کہ امریکی اپنی معاشی کامیابیوں میں عمومی طور پر دوسروں کو شریک کریں گے اور یہ کہ یہ معاہدے دنیا کی ایسے ہی صورت گری کریں گے جیسا کہ ہم چاہتے تھے۔ ایسی اچھی چیزوں پر یقین کرنے کی ہمارے پاس معقول وجوہات تھیں۔ لیکن ہم نے یہ سمجھنے پر کافی کام نہیں کیا کہ ان سے منفی طور پر کون کون متاثر ہوگا اور اُن کی مشکلات کو ختم کرنے یا پہلے ہی سے موجود معاہدوں کو نافذ کرنے یا اِن سے مزید محنت کشوں کی مدد کرنے اور چھوٹے کاروباروں کو مکمل فائدہ پہنچانے کے لیے کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہوگی۔

اب ہمارا طرز عمل مختلف ہوگا۔ ہم ہر ایک امریکی ملازمت اور تمام امریکی کارکنوں کے حقوق، تحفظات اور مفادات کے لیے لڑیں گے۔ ہم دوسرے ممالک کو اپنی املاک دانش چوری کرنے یا غیرمنصفانہ فوائد حاصل کرنے کے لیے اپنی کرنسیوں میں ردوبدل کرنے سے روکنے کے لیے تمام وسائل استعمال کریں گے۔ ہم بدعنوانی کا مقابلہ کریں گے جو ہماری راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہے اور ہمیں نقصان پہنچاتی ہے۔ اور ہماری تجارتی پالیسیوں کو واضح طور پر ان باتوں کا جواب دینے کی ضرورت ہو گی کہ وہ امریکہ کے متوسط طبقے کو کس طرح ترقی دیں گیں، نئی اور بہتر ملازمتیں پیدا کریں گیں، اور نہ صرف اُن کو فائدہ پہنچائیں گیں جن کے حق میں معیشت پہلے ہی کام کر رہی ہے بلکہ تمام امریکیوں کو فائدہ پہنچائیں گیں۔

تیسرا، ہم جمہوریت کی تجدید کریں گے کیونکہ یہ خطرات کی زد میں ہے۔

* * * *

ہم اور دیگر جمہوریتیں دنیا پر جتنا زیادہ یہ ثابت کر سکیں گے کہ ہم کامیاب ہو سکتے ہیں – نہ صرف اپنے عوام کے لیے بلکہ ایک دوسرے کے لیے بھی – اور عوام کی بنیادی ضروریات اور امیدوں کو پورا کرنے کا ہمارا طریقہ بہتر ہے تو ہم اتنا ہی زیادہ اُس جھوٹ کو ثابت کر سکتے ہیں جو آمرانہ ممالک بولنا پسند کرتے ہیں۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اُن کو غلط ثابت کریں۔

* * * *

ہم مثال کی اپنی طاقت کو استعمال کریں گے۔ ہم دوسروں کی بنیادی اصلاحات کرنے، خراب قوانین کو ختم کرنے، بدعنوانی کا مقابلہ کرنے، اور غیرمنصفانہ طریقوں کو روکنے کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ ہم جمہوری رویے کی ترغیب دیں گے۔

مگر ہم مہنگی فوجی مداخلتوں یا آمرانہ حکومتوں کو طاقت کے زور پر ختم کرنے کی کوششوں کے ذریعے جمہوریت کو فروغ نہیں دیں گے۔ ماضی میں ہم یہ حربے آزما چکے ہیں۔ بہت زیادہ نیک نیتی پر مبنی ہونے کے باوجود یہ کامیاب نہیں ہوئے۔ انہوں نے "جمہوریت کے فروغ" کو بدنام کیا، اور یہ امریکی عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ ہم مختلف طریقے سے کام کریں گے۔

چوتھا، ہم امیگریشن کا ایک انسان دوست اور موثر نظام تشکیل دینے پر کام کریں گے۔

مضبوط سرحدیں ہماری قومی سلامتی کی بنیاد ہیں اور ہمارے قوانین ہماری جمہوریت کی مضبوط اساس ہیں۔

لیکن ہمیں اس حقیقی مسئلے کے ایک سفارتی – منصفانہ، اور مکمل طور پر مہذبانہ – حل کی بھی ضرورت ہے کہ سالہا سال سے دوسرے ممالک کے لوگ اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر یہاں آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں ان بنیادی وجوہات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جو اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کرتی ہیں۔ لہذا ہم دوسرے ممالک – بالخصوص وسطی امریکہ کے اپنے ہمسایوں – کے ساتھ لوگوں کو بہتر جانی سلامتی اور معاشی مواقع فراہم کرنے میں مدد کرنے کے لیے قریبی طور پر مل کر کام کریں گے تاکہ اپنے بچوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی خاطر لوگ ترک وطن جیسے طریقے کو ہی واحد طریقہ نہ سمجھیں۔

* * * *

ہماری قومی شناخت کا ایک اہم ترین جزو یہ ہے کہ ہم تارکین وطن کا ملک ہیں۔ ہم اس حقیقت سے مضبوط سے مضبوط تر ہوتے ہیں کہ محنتی لوگ یہاں تعلیم حاصل کرنے، کاروبار شروع کرنے اور ہماری کمیونٹیوں کو مالا مال کرنے آتے ہیں۔ ہم گزشتہ چند برسوں سے اس راہ سے ہٹ چکے ہیں۔ ہمیں اس طرف واپس جانا ہوگا۔

پانچواں، اپنے اتحادیوں اور شراکت کاروں کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ مضبوط بنائیں گے۔

ہمارے اتحاد ایسے ہیں جنہیں فوجی زبان میں " فیصلہ کن عناصر" کہا جاتا ہے۔ وہ ہمارا منفرد اثاثہ ہیں۔ اِن کے ساتھ ہم اتنے زیادہ کام کر سکتے ہیں جتنے ہم اِن کے بغیر نہیں کر سکتے۔ لہذا اس وقت ہم اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ دوبارہ روابط قائم کرنے پر بہت محنت کر رہے ہیں – اور اُن شراکت داریوں کو دوبارہ استوار کرنے پر بھی جو برسوں پہلے تشکیل دی گئی تھیں تاکہ وہ آج کے اور آنے والے کل کے چیلنجوں کے لیے ثابت ہو سکیں۔

* * * *

ہم اس بارے میں بڑے واضح ہوں گے کہ حقیقی شراکت داری کا مطلب مل کر وزن اٹھانا ہوتا ہے – یعنی صرف ہم ہی نہیں بلکہ ہر ایک اپنے حصے کا کام کرے۔

چھٹا، ہم آب و ہوا کے بحران پر قابو پائیں گے اور سبز توانائی کے انقلاب کو آگے بڑہائیں گے۔

* * * *

آب و ہوا کا بحران ہم سب کو خطرے سے دوچار کر رہا ہے اور اس کی قیمت ہمیں مہینوں کے حساب سے چکانا پڑ رہی ہے، اور ہم اسے اکیلے ٹھیک نہیں کرسکتے۔ امریکہ دنیا کی 15 فیصد کاربن آلودگی پیدا کرتا ہے۔ یہ بہت بڑی مقدار ہے اور ہمارے لیے اس شرح کو کم کرنا انتہائی ضروی ہے۔ لیکن اگر ہم نے اسے صفر پر بھی لایا ہوتا تب بھی ہم اس بحران کو حل نہ کر پاتے کیونکہ بقایا 85 فیصد تو دنیا پیدا کررہی ہے۔ یہ اس مسئلے کی تعریف ہے جس کو حل کرنے کے لیے ہمیں قوموں کی ایک برادری کی حیثیت سے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

* * * *

اور جب ہم یہ کام کرتے ہیں تو ہمیں امریکہ کو بھی دن بدن ترقی کرتی ہوئی قابل تجدید توانائی کی عالمی منڈی میں پھلنے پھولنے اور اس کی قیادت کرنے کے مقام پر کھڑا کرنا ہوگا۔ آج دنیا میں ہوا سے اور شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنا سستے ترین ذرائع ہیں۔ وہ اب مستقبل کی صنعتیں نہیں رہیں – بلکہ مستقبل اب ہے۔ اور دوسرے ممالک ہم سے آگے ہیں۔ ہمیں اس کو بدلنے اور قابل تجدید ذرائع میں امریکیوں کے لیے اچھی تنخواہوں والی لاکھوں ملازمتیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

ساتواں، ٹکنالوجی میں ہم اپنی قیادت کو محفوظ بنائیں گے۔

ٹکنالوجی کا ایک عالمگیر انقلاب اس وقت برپا ہو رہا ہے۔ دنیا کی سرکردہ طاقتوں کی مصنوعی ذہانت اور کوانٹم کمپیوٹنگ جیسی ایسی نئی ٹکنالوجیاں تیار کرنے اور اُنہیں استعمال کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے جو ہمارے توانائی حاصل کرنے کے ذرائع سے لے کر ہمارے کام کرنے کے طریقوں، جنگیں لڑنے کے طریقوں تک، ہماری زندگیوں سے تعلق رکھنے والی ہر ایک چیز کی صورت گری کر سکتی ہیں۔

* * * *

لیکن ہمیں علم ہے کہ نئی ٹکنالوجیاں خودبخود فائدہ مند نہیں ہوتیں – اور یہ کہ جو اُن کو استعمال کرتے ہیں اُن کے ارادے ہمیشہ نیک نہیں ہوتے۔ ہمیں یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ نئی ٹیکنالوجیاں آپ کی رازداری کا تحفظ کریں، دنیا کو زیادہ محفوظ اور زیادہ صحت مند بنائیں، اور جمہوریت کو مزید مضبوط بنائیں۔

* * * *

اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ٹکنالوجی کے اپنے دفاعوں اور مزاحمتی نظاموں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ دیکھنے کے لیے کہ ہمارے مخالفین ہمیں نقصان پہنچانے پر کتنے تلے ہوئے ہیں، صرف گزشتہ برس امریکی حکومت کے نیٹ ورکوں کے بڑے ہیک یعنی سولر ونڈز کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

* * * *

آٹھواں، ہم اکیسویں صدی کی ارضیاتی سیاست کے سب سے بڑی آزمائش سے عہدہ بر آ ہوں گے: یعنی چین کے ساتھ ہمارے تعلقات۔

* * * *

معاشی، سفارتی، فوجی اور تکنیکی طاقت کا حامل چین، مستحکم اور کھلے بین الاقوامی نظام کو سنجیدگی سے چیلنج کرنے والا واحد ملک ہے – یعنی اُن تمام قواعد، اقدار اور تعلقات کو چیلنج کرنے والا جو دنیا کو اس طرح چلاتے ہیں جس طرح کہ ہم چاہتے ہیں کیونکہ انجام کار یہ امریکی عوام کے مفادات پورے کرتے ہیں اُن کی اقدار کی عکاسی کرتے ہیں۔

چین کے ساتھ ہمارے تعلقات مسابقانہ ہوں گے جب ایسے ہونے چاہیئیں، باہمی تعاون والے ہوں گے جب یہ ہو سکتے ہوں، اور مخالفانہ ہوں گے جب ایسا ہونا اشد ضروری ہوگا۔ چین کے ساتھ طاقت کی پوزیشن سے معاملات طے کرنے کی ضرورت پر متفق ہیں۔

اس کے لیے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ انہیں بدنام کرنے کی، کیونکہ چین کے لیے ہمارے اجتماعی وزن کو نظر انداز کرنا کہیں زیادہ مشکل ہے۔ اس کے لیے ہمیں سفارت کاری میں اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ جس جگہ سے ہم پیچھے ہٹ چکے ہیں، اس جگہ چین آ گیا ہے۔ جب شنجیانگ میں انسانی حقوق کو پامال کیا جاتا ہے یا ہانگ کانگ میں جمہوریت کو پاؤں تلے روندا جاتا ہے تو اس وقت ہمیں اپنی اقدار کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ اگر ہم نہیں کھڑے ہوں گے تو چین سزا سے بچتے ہوئے ان سے بھی بڑی زیادتیاں کرے گا۔ اس کا مطلب امریکی کارکنوں، کمپنیوں، اور ٹکنالوجیوں میں سرمایہ کاری کرنا ہے اور یکساں مواقع پر اصرار کرنا ہے، کیونکہ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم مقابلے میں کسی کو بھی پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔

* * * *

یہ ترجیحات بیک وقت ملکی اور غیرملکی مسائل بھی ہیں۔ اور ہمییں اسی انداز سے اِن سے نمٹنا ہے ورنہ ہم ناکام ہو جائیں گے۔

* * * *

اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں – ہوسکتا ہے میری زندگی میں بھی – پہلے سے کہیں زیادہ "ملکی" اور "غیرملکی" پالیسیوں کے درمیان فرق ختم ہو گئے ہیں۔ ہماری اندرون ملک تجدید اور دنیا میں ہماری طاقت مکمل طور پر باہم مل چکی ہیں۔ اور جس طریقے سے ہم کام کریں گے وہ طریقہ اس حقیقت کی عکاسی کرے گا۔


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/a-foreign-policy-for-the-american-people/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔


This email was sent to stevenmagallanes520.nims@blogger.com using GovDelivery Communications Cloud on behalf of: Department of State Office of International Media Engagement · 2201 C Street, NW · Washington, DC · 20520 GovDelivery logo

No comments:

Page List

Blog Archive

Search This Blog

#1 Pre-IPO Opportunity For 2024 [Take Action Now!]

"Larger Than Any IPO Valuation in History" ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏ ...