Tuesday, February 4, 2025

وزیر خارجہ مارکو روبیو کا ایرومین کا دورہ

Department of State United States of America

یہ ترجمہ امریکی دفترخارجہ کی جانب سے ازراہ نوازش پیش کیا جارہا ہے۔



امریکی محکمہ خارجہ
ترجمان کا دفتر
3 فروری، 2025
ایرومین ہیڈکوارٹرز
سان سلواڈور، ایل سلواڈور

وزیر خارجہ روبیو: میں پہلے انگریزی اور پھر ہسپانوی زبان میں بات کروں گا۔ سب سے پہلی بات، یہاں آ کر بہت خوشی ہوئی۔ مغربی کرے میں ہوائی جہازوں کو ٹھیک کرنے کی ہماری 25 فیصد صلاحیت یہیں ہے اور آپ اس جگہ کھڑے ہیں جہاں یہ کام ہوتا ہے۔ آپ کو محض مہاجرت روکنے کے لیے ہی اس ترقی کی ضرورت نہیں بلکہ دنیا بھر میں متوسط طبقہ پیدا کرنے کے لیے بھی اس کی خاص اہمیت ہے اور یہ سب کچھ نجی شعبے کے ذریعے ہوتا ہے۔ ایک یہ وجہ بھی ہے کہ میں یہاں آنے کا خواہش مند تھا کہ یہاں سرمایہ کاری کے لیے بہت دوستانہ ماحول ہے۔ میں صدر بوکیلے کو طویل عرصہ سے جانتا ہوں جنہوں نے سلامتی اور استحکام مہیا کرنے کے لیے شاندار کام کیا ہے۔ محض ان کمپنیوں کی موجودگی کے سبب یہ ممکن نہ ہوتا جو یہاں طویل عرصہ سے کام کر رہی ہیں۔ اس کے بجائے یہ ترقی اور وسعت ہے جس کی بدولت ہم یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ اگر آپ روزگار کو دیکھیں تو یہ ایسی نوکریاں ہیں جو ہم امریکہ میں بھی تخلیق کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بہت اچھی اور معقول اجرت اور صلاحیتیں مہیا کرنے والی نوکریاں ہیں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جسے آپ مزید بڑے پیمانے پر اور پورے کرے میں دیکھنے کی امید رکھ سکتے ہیں۔ لہٰذا اس جگہ آنا بہت خوشی کی بات اور متاثر کن احساس ہے۔

(ہسپانوی زبان میں)

میں چند سوالات کے جوابات دوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ہم پہلے ہی اپنے شیڈول سے ہٹ کر چل رہے ہیں، تاہم ۔۔۔

سوال: کیا آپ ہمیں یو ایس ایڈ کے بارے میں بتا سکتے ہیں، یو ایس ایڈ میں کیا ہو رہا ہے اور اس کے کیا اثرات ہیں (ناقابل سماعت)؟

وزیر خارجہ روبیو: دیکھیے، میرا مطلب یہ ہے کہ، یو ایس ایڈ کے ساتھ میری پریشانی اس دور سے چلی آ رہی ہے جب میں کانگریس میں تھا۔ یہ یکسر غیرمتاثر کن ادارہ ہے۔ اسے محکمہ خارجہ میں پالیسی سے متعلق ہدایات کا جواب دینا ہوتا ہے اور اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ لہٰذا، یو ایس ایڈ کے بہت سے کام جاری رہیں گے اور وہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہوں گے، لیکن اسے امریکہ کی خارجہ پالیسی سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔

میں نے اپنے عہدے کی توثیق سے متعلق ہونے والی سماعت میں واضح طور پر کہا تھا کہ ہمارے خرچ کردہ ہر ڈالر اور ہماری مالی مدد سے چلنے والے ہر پروگرام کو امریکہ کے قومی مفادات سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ یو ایس ایڈ کی تاریخ رہی ہے کہ وہ اس بات کو نظرانداز کرتا آیا ہے اور یہ سمجھتا رہا ہے کہ جیسے وہ کوئی عالمی خیراتی ادارہ ہے جس کا قومی مفاد سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ٹیکس دہندگان کے دیے ہوئے ڈالر ہیں۔

میرے لیے یہ اطلاعات نہایت پریشان کن ہیں کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ تعاون کرنے پر رضامند نہیں ہوئے جو محض یہ سادہ سے سوالات پوچھ رہے ہیں کہ یہ پروگرام کیا کرتا ہے، یہ رقم کون حاصل کرتا ہے، ہمارے ٹھیکے دار (کنٹریکٹر) کون ہیں اور کسے مالی وسائل مل رہے ہیں۔ احکامات کی اس سطح پر خلاف ورزی کے باعث پختہ اور سنجیدہ جائزہ لینا ممکن نہیں رہا جو میرے خیال میں بیرون ملک دی جانے والی امداد کے بارے میں لیا جانا چاہیے۔ ہم یہاں ٹیکس دہندگان کی دی ہوئی رقم خرچ کر رہے ہیں۔ یہ عطیہ دہندگان کے دیے ہوئے ڈالر نہیں ہیں۔ یہ ٹیکس دہندگان کے ڈالر ہیں اور ہم پر امریکی عوام کا حق ہے کہ ہم انہیں یہ یقین دہانی کرائیں کہ ہم بیرون ملک جو ڈالر خرچ کر رہے ہیں وہ ہمارے قومی مفادات کی تکمیل کے کام آتے ہیں۔ اب تک یو ایس ایڈ میں کام کرنے والے بہت سے لوگوں نے اس معاملے میں تعاون کرنے سے انکار کیا ہے۔

سوال: کیا اس وقت یو ایس ایڈ کے انچارج آپ ہیں؟ کیا آپ ۔۔۔

وزیر خارجہ روبیو: میں یو ایس ایڈ کا قائمقام ڈائریکٹر ہوں۔ میں نے یہ ذمہ داری کسی اور کو تفویض کر رکھی ہے لیکن میں ان کے ساتھ رابطے میں ہوں۔ میں ایک مرتبہ پھر کہوں گا کہ ہمارا مقصد بیرون ملک دی جانے والی اپنی امداد کو قومی مفادات سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ تاہم، اگر آپ دنیا بھر میں امریکہ کے مشن اور سفارت خانوں کا جائزہ لیں تو زیادہ تر یہ دیکھیں گے کہ بہت سے معاملات میں یو ایس ایڈ ایسے پروگرام چلا رہا ہے جو کسی ملک یا خطے کے حوالے سے ہماری قومی حکمت عملی سے متضاد ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس طرح جاری نہیں رہ سکتا۔

یو ایس ایڈ کوئی آزاد اور غیرسرکاری ادارہ نہیں ہے۔ یہ ایسا ادارہ ہے جو ٹیکس دہندگان کے دیے ہوئے ڈالر خرچ کرتا ہے اور قانون کے تحت اسے یہ کام وزیر خارجہ، قومی سلامتی کونسل اور صدر سے پالیسی سے متعلق ملنے والے احکامات کے مطابق کرنا ہے۔ تقریباٍ 20 یا 30 سال پہلے یو ایس ایڈ میں اصلاحات لانے کی کوشش کی گئی تو اس نے تعاون سے انکار کیے رکھا۔ ج ہم کانگریس میں تھے تو ہمیں اس کے پروگراموں سے متعلق بنیادی سوالات کے جواب بھی نہیں ملتے تھے۔ اب ایسا نہیں چلے گا۔ یہ سب کچھ جاری نہیں رہے گا۔

سوال: حال ہی میں ایلون مسک نے اسے دہشت گرد ادارہ کہا ہے۔ کیا آپ اس پر یقین کرتے ہیں؟

وزیر خارجہ روبیو: میں نے اس ادارے کے ساتھ اپنے مسائل کے بارے میں آپ کو بتایا ہے جو اس وقت سے چلے آ رہے ہیں جب میں کانگریس میں تھا۔ جب ہم ان سے سوالات کرتے کہ اس پروگرام سے کس کو مالی مدد ملتی ہے، رقم کون حاصل کرتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ ہم آپ کو نہیں بتائیں گے، ہمیں آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں، ہم غیرسیاسی ادارہ ہیں۔ دیکھیے، امریکہ کی خارجہ پالیسی غیرسیاسی نہیں ہے۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی کو امریکہ کے مفادات کی تکمیل کرنا ہے۔

اگر کوئی غیرسیاسی ڈالر خرچ کرنا چاہتا ہے تو اسے نجی شعبے کے ڈالر خرچ کرنا چاہئیں۔ خیراتی ادارہ قائم کریں اور پھر جسے چاہیں مالی وسائل فراہم کریں۔ لیکن، اگر آپ ٹیکس دہندگان کی رقم خرچ کریں گے تو پھر آپ کو یہ امریکہ کے قومی مفادات کی تکمیل کے لیے خرچ کرنا ہو گی۔ میں نے اپنے عہدے کی توثیقی سماعت کے موقع پر یہی کچھ کہا تھا۔ یہ صرف میری پریشانی ہی نہیں ہے بلکہ یہ پریشانی تقریباً ربع صدی کے عرصہ میں امریکہ کی مختلف حکومتوں کی پریشانی بھی رہی ہے اور انہیں یہی مسئلہ درپیش رہا ہے۔ اب اسے روکا جانا اور اسے ختم ہونا ہے۔

سوال: کیا آپ ہمیں گزشتہ روز پاناما کے صدر کے ساتھ نہر کے حوالے سے اپنی بات چیت کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں؟ کیا آپ ۔۔۔

وزیر خارجہ روبیو: جی، ہماری دوستانہ انداز میں بات چیت ہوئی ہے۔ میں جو ۔۔۔

سوال: ٹھیک ہے، لیکن  میرا مطلب ہے کہ ۔۔۔

وزیر خارجہ روبیو: میں نے صدر مولینو سے جو بات کہی ہے، دیکھیے، وہ امریکہ کے دوست ہیں اور پاناما امریکہ کا مضبوط شراکت دار اور اتحادی ہے۔

جیسا کہ صدر نے واضح کیا ہے، ہم نے یہ نہر پاناما کو دی تھی۔ ہم نے یہ چین کے حوالے نہیں کی تھی۔ اب اس کی بندرگاہ میں داخلے کے دونوں راستے چین کے کنٹرول میں ہیں۔ معاہدے کے تحت ہماری ذمہ داری ہے کہ جب نہر پر حملہ ہوا تو ہم اس کا تحفظ کریں گے لیکن ہماری بحری فوج وہاں سے گزرنے کے لیے فیس ادا کر رہی ہے۔

لہٰذا، میں نے ان چیزوں کے بارے میں انہیں اپنی پریشانی سے آگاہ کیا۔ میں ایک مرتبہ پھر کہوں گا کہ یہ پاناما کے ساتھ ہمارا ایک نازک مسئلہ ہے۔ ہم پاناما کے ساتھ مخالفانہ یا منفی تعلقات نہں چاہتے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہم ایسا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن، ہم نے ایک دوسرے سے دوستانہ اور احترام کے جذبے کے تحت بات چیت کی۔ مجھے امید ہے کہ آنے والے دنوں میں اس کے اچھے ثمرات سامنے آئیں گے۔

سوال: کیا آپ اس معاملے کو دیکھنے اور بالخصوص (ناقابل سماعت) ٹھیکوں کے معاملے میں ان کے جواب سے خوش ہیں یا کم از کم کیا آپ کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے؟

وزیر خارجہ روبیو: دیکھیے، انہوں نے بیلٹ کے حوالے سے کچھ اعلانات کیے ہیں۔ جی ہاں، بیلٹ اینڈ روڈ اقدام کے بارے میں، جو کہ اچھے ہیں۔

سوال: ٹھیک ہے۔

وزیر خارجہ روبیو: میرا مطلب ہے کہ، وہ لاطینی امریکہ میں پہلا ملک ہیں جو بیلٹ اینڈ روڈ کے ساتھ اپنے تعلقات کو ختم کرے گا۔ پاناما کے ساتھ ہمارے تعلقات اس نہر کے معاملے سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ وہ ڈیریئن گیپ اور اس جیسی دیگر جگہوں پر مہاجرت کی شرح میں کمی لانے کے حوالےسے ہمارے بہت اچھے شراکت دار رہے ہیں۔

لہٰذا، میں سمجھتا ہوں یہ بہت اچھا دورہ تھا۔ یقیناً، ابھی مزید بہت سا کام باقی ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک اچھا، مفید باہمی احترام کے جذبات پر مبنی دورہ تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بہت اچھی چیزیں سامنے آئیں گی جن سے ہمارے خدشات کا ازالہ ہو گا۔ لیکن وقت بتائے گا کہ کیا ہوتا ہے۔ ہم دیکھیں گے۔ تاہم، میں اس دورے کے حوالے سے بہت اچھا محسوس کرتا ہوں۔

سوال: (ناقابل سماعت) میکسیکو پر محصولات عائد کرنے کا معاملہ؟

سوال: میکسیکو کے حوالے سے آپ کا کردار کیا تھا؟ میکسیکو کے حوالے سے فیصلے کا عارضی التوا؟ کیا آپ اس بارے میں قدرے مزید کچھ کہہ سکتے ہیں ۔۔۔

وزیر خارجہ روبیو: وہ 10 ہزار بھیجیں گے ۔۔۔

سوال: ۔۔۔ آپ کا کردار؟

وزیر خارجہ روبیو: جی، وہ 10 ہزار سرحدی محافظ بھیجیں گے۔ صدر نے فینٹانائل اور غیرقانونی مہاجرت کے حوالے سے پریشانی کا اظہار کیا ہے۔ اس طرح یہ ایک اچھا قدم ہے۔ لہذا صدر نے اس میں مزید ایک ماہ کی توسیع کر دی ہے۔ میں اس حوالے سے فون پر ہونے والی گفتگو میں شریک نہیں تھا، لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں، ان کی صدر شین بام کے ساتھ اچھی بات چیت ہوئی۔

ہم میکسیکو کے ساتھ اچھی شراکت داری چاہتے ہیں۔ وہ ہمیشہ ہمارے ہمسایے رہیں گے اور یہ ایک ایسا ملک ہے جس کے ساتھ ہمارا بہت سا تعلق ہے، لیکن میرے ناصرف خطرناک منشیات فروش گروہوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی موجودگی کے حوالے سے ہی جائز خدشات نہیں جو کہ بعض اوقات میکسیکو کے بعض حصوں میں حکومتوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ میکسیکو کی خودمختاری کے لیے بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔

ہم اس حوالے سے اچھے شراکت دار بن کر رہنا چاہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سرحد پر میکسیکو کی سمت میں نیشنل گارڈ کے 10 ہزار اہلکاروں کی تعیناتی کا فیصلہ ایک اچھی علامت ہے۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس سے ہمارے بتائے تمام مسائل حل ہو جائیں گے، کیونکہ صدر میکسیکو کے ساتھ تجارتی عدم توازن پر بھی قابو پانا چاہتے ہیں۔ تاہم، یقیناً آپ نے اس کا نتیجہ دیکھا ہے۔

سوال: کیا آپ میکسیکو کا دورہ کریں گے؟ کیا آپ میکسیکو کا دورہ کریں گے تاکہ بات کر سکیں ۔۔۔

وزیر خارجہ روبیو: کیا میں میکسیکو کا دورہ کروں گا؟ مجھے یقین ہے کہ میں یہ دورہ کروں گا، لیکن ہم اپنے حالیہ دورے میں وہاں جانے کی منصوبہ بندی نہیں کر رہے۔ یقیناً، چیزیں کسی بھی لمحے تبدیل ہو سکتی ہیں۔ لیکن اس وقت میں ان کے وزیر خارجہ سے رابطے میں ہوں۔ ہم نے بہت اچھے تعلقات کا آغا کیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم بہت جلد ان سے بات کریں گے یا ان سے ملیں گے، تاہم فی الوقت ایسے دورے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کہ ہمارے ساتھ کام کرنے والے آپ لوگوں میں سے بعض اس سوال کا جواب جاننا چاہتے ہیں لیکن اس وقت ہم نے ایسی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔

سوال: جناب وزیر، یو ایس ایڈ کی جانب سے خرچ کی جانے والی رقم کو خیراتی کہہ کر اس پر تنقید کی جارہی ہے، میرے خیال میں آپ نے یہی لفظ استعمال کیا یا غریب ممالک کی بہبود سے متعلق بات کی، یو ایس ایڈ کا دفاع کرنے والے اور کانگریس کے بعض ارکان کہتے ہیں کہ اس کا کام امریکہ کے مفاد میں ہے اور یہ استحکام کو فروغ دیتا یا سمندر پار امریکہ کے لیے خیرسگالی کے جذبات پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے۔ آپ اس پر کیا کہیں گے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یو ایس ایڈ بہت سا کام کرتا ہے لیکن اس کے جانب سے کیے جانے والے بعض اخراجات پر آپ کے تحفظات ہیں؟

وزیر خارجہ روبیو: جی، میرا مسئلہ یہ ہے، جیسا کہ میں ںے بتایا، یو ایس ایڈ کے ذریعے ہونے والے بعض کام جاری رہیں گے لیکن اس کا تمام تر کام امریکہ کے قومی مفاد اور اس کی خارجہ پالیسی سے ہم آہنگ ہو گا۔ یو ایس ایڈ نے گزشتہ برسوں میں کچھ ایسا طرزعمل اپنایا ہے کہ، نہیں ہم قومی مفاد سے ہٹ کر ایک آزاد ادارہ ہیں، ہم اس بات کو دیکھے بغیر پروگراموں کو مالی وسائل مہیا کرتے ہیں کہ آیا وہ ہماری خارجہ پالیسی سے ہم آہنگ ہیں یا نہیں۔ یہ بیہودہ بات ہے۔ یہ ٹیکس دہندگان کے ڈالر ہیں۔ بیرون ملک امداد کے لیے خرچ کردہ ہر ایک پینی سے امریکہ کےمفادات کی تکمیل ہونی چاہیے اور اسے امریکہ کی خارجہ پالیسی کے مطابق استعمال ہونا چاہیے۔

یہ یو ایس ایڈ کی مدد سے چلائے جانے والے پروگراموں کو ختم کرنےکی بات نہیں۔ یہ ادارہ بہت اچھے کام بھی کر رہا ہے اور اس کے بہت سے اقدمات پر ہمارے سنگین خدشات بھی ہیں۔ ان کا تعلق بحیثیت ادارہ اس کے طریقہ کار سے ہے۔ انہیں اپنی پالیسی کے حوالے سے محکمہ خارجہ سے ہدایات لینی چاہئیں۔ تاہم، وہ ایسا نہیں کرتے۔ ناصرف وہ پالیسی سے متعلق ہدایات نہیں لیتے بلکہ جب ان سے کوئی سوال کیا جائے کہ اس پروگرام کا کیا مقصد ہے، رقم کسے مل رہی ہے، اس کے لیے مالی وسائل کیوں آئے، ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں اور آپ سفارت خانے یا محکمہ خارجہ کے ساتھ رابطے میں کیوں نہیں ہیں تو وہ بالکل کوئی تعاون نہیں کرتے۔ ان کا رویہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ ہمیں آپ کو جواب دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم آزاد ہیں، ہمیں کسی کو جواب نہیں دیتے۔ تاہم، یہ بات درست نہیں ہے اور مزید ایسا نہیں چلے گا۔

ٹھیک ہے، آپ کا شکریہ۔


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/secretary-of-state-marco-rubio-at-a-tour-of-aeroman/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔


This email was sent to stevenmagallanes520.nims@blogger.com using GovDelivery Communications Cloud on behalf of: Department of State Office of International Media Engagement · 2201 C Street, NW · Washington, DC · 20520 GovDelivery logo

No comments:

Page List

Blog Archive

Search This Blog

USAO - Massachusetts News Update

Offices of the United States Attorneys   You are subscribed to USAO - Massachusett...