Tuesday, February 21, 2023

صدر بائیڈن کی روس کے یوکرین پر وحشیانہ اور بلا اشتعال حملے کا ایک سال مکمل ہونے سے قبل تقریر

Department of State United States of America

یہ ترجمہ امریکی دفترخارجہ کی جانب سے ازراہ نوازش پیش کیا جارہا ہے۔



وائٹ ہاؤس
واشنگٹن ڈی سی.
21 فروری 2023

وارسا کا رائل کاسل
وارسا، پولینڈ

5:39 سہ پہر سی ای ٹی

صدر: ہیلو، پولینڈ! (تالیاں۔) ہمارے عظیم اتحادیوں میں سے ایک اتحادی۔ صدر ڈُوڈا، مسٹر پرائم منسٹر، مسٹر میئر، اور تمام سابق وزراء اور صدور کے علاوہ  پورے ملک کے میئروں اور پولینڈ کے تمام سیاسی رہنماؤں کا: پولینڈ میں مجھے ایک بار پھر خیرمقدم کرنے پر شکریہ۔

آپ جانتے ہیں کہ یہ تقریباً ایک سال پہلے کی بات ہے — (تالیاں) — تقریباً ایک سال قبل جب میں نے یہاں وارسا کے رائل کاسل میں تقریر کی تھی تب ولادیمیر پوتن کے یوکرین پر قاتلانہ حملے کو شروع ہوئے محض چند ہفتے ہوئے تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ میں سب سے بڑی زمینی جنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔ اور وہ اصول جو 75 سال سے زیادہ عرصے سے اس کرہ ارض پر امن، خوشحالی اور استحکام کی بنیاد بنے ہوئے تھے ان کی پامالی کے خطرات پیدا ہو چکے تھے۔

ایک سال پہلے دنیا کیف پر قبضے کی خبر سننے کی تیاریاں کر رہی تھی۔ تو سنیے، میں ابھی کیف کا دورہ کر کے آ رہا ہوں اور میں یہ اطلاع دے سکتا ہوں کہ کیف اپنی جگہ مضبوطی سے کھڑا ہے۔ کیف کو اس بات پر فخر ہے۔ کیف پوری شان سے کھڑا ہے۔  سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ وہ آزاد ہے۔ (تالیاں)

جب روس نے حملہ کیا تو یہ صرف یوکرین کا ہی امتحان نہیں تھا۔ بلکہ پوری دنیا کو صدیوں میں پیش آنے والی آزمائش کا سامنا تھا۔

یہ یورپ کا امتحان تھا۔ یہ امریکہ کا امتحان تھا۔ یہ نیٹو کا امتحان تھا۔ یہ تمام جمہوریتوں کا امتحان تھا۔ ہمیں جن سوالوں کا سامنا تھا  وہ جتنے سادہ تھے اتنے ہی سخت تھے۔

کیا ہم اِن کا جواب دیں گے یا ہم نظریں چرائیں گے؟ کیا ہم طاقتور بنیں گے یا کمزور بنیں گے؟ کیا ہمارے تمام اتحادی متحد ہوں گے یا منقسم ہوں گے؟

ایک سال بعد ہمیں اِن کے جواب معلوم ہیں۔

ہم نے اِن کا ضرور جواب دیا۔ ہم مضبوط ہوں گے۔ ہم متحد ہوں گے۔ اور دنیا نظریں نہیں چرائے گی۔ (تالیاں)

ہمیں سب سے بنیادی اصولوں کے ساتھ اپنی وابستگی کے بارے میں بنیادی ترین سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ کیا ہم قوموں کی خودمختاری کے حق میں کھڑے ہوں گے؟ کیا ہم لوگوں کے ننگی جارحیت سے آزاد رہ کر زندگی گزارنے کے حق کے لیے کھڑے ہوں گے؟ کیا ہم جمہوریت کے حق میں کھڑے ہوں گے؟

ایک سال بعد ہم اِن سوالوں کے جواب جانتے ہیں۔

جی ہاں ہم خودمختاری کے حق میں کھڑے ہوں گے۔ اور ہم کھڑے ہوئے۔

جی ہاں ہم جارحیت سے آزاد رہ کر زندگی گزارنے کے حق کے لیے کھڑے ہوں گے۔ اور ہم کھڑے ہوئے۔

اور ہم جمہوریت کے حق میں کھڑے ہوں گے۔ اور ہم کھڑے ہوئے۔

اور کل مجھے کیف میں یہ اعلان کرنے کے لیے صدر زیلنسکی کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعزاز حاصل ہوا کہ چاہے جو کچھ بھی ہو جائے ہم بعینہی انہیں چیزوں کے حق میں کھڑے ہوں گے۔ (تالیاں۔)

جب صدر پوتن نے اپنے ٹینکوں کو یوکرین پر چڑھ دوڑنے کا حکم دیا تو اُنہوں نے سوچا کہ ہم بھاگ نکلیں گے۔ مگر وہ غلطی پر تھے۔

یوکرین کے عوام بہت بہادر ہیں۔

امریکہ، یورپ، بحر اوقیانوس سے لے کر بحرالکاہل تک کے ممالک کا اتحاد — ہم بہت زیادہ متحد تھے۔

جمہوریت بہت زیادہ متحدہ تھی۔

جس آسان فتح کا پوتن نے سوچ اور سمجھ رکھا تھا اُس کی بجائے پوتن کو جلتے ہوئے ٹینکوں اور افراتفری کا شکار روسی افواج دیکھنے کو ملیں۔

اس نے سوچا تھا کہ اسے نیٹو کی فائنڈلائزیشن دیکھنے کو ملے گی۔ مگر اس کے بجائے اسے فن لینڈ — اور سویڈن کی نیٹوائزیشن دیکھنے کو ملی۔ (تالیاں۔)

اُس کا خیال تھا کہ نیٹو میں دراڑیں پڑ جائیں گیں اور وہ تقسیم ہو جائے گا۔ اس کے بجائے نیٹو جتنا متحد اور جتنا جڑا ہوا  آج ہے اتنا پہلا کبھی بھی نہیں تھا۔

اس نے سوچا کہ وہ آپ کے عزم – یورپ کے عزم کو کمزور کرنے کے لیے توانائی کو ہتھیار بنا سکتا ہے۔

اس کے برعکس ہم روس کے معدنی ایندھن پر یورپ کے انحصار کو ختم کرنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔

اُس کا خیال تھا کہ اُس جیسے آمر سخت ہیں اور جمہوری لیڈر نرم ہیں۔

اور پھراُسے امریکہ اور کے ممالک کے کسی ایسی دنیا کو قبول نہ کرنے کے آہنی عزم کا سامنا کرنا پڑا جس پر خوف اور طاقت کی حکمرانی ہو۔

اُس نے اپنے آپ کو ایک ایسی قوم کے خلاف نبرد آزما پایا جس کی قیادت ایک ایسے شخص کے ہاتھوں میں ہے جو آگ اور فولاد میں ڈھل کر بنا ہے یعنی صدر زیلنسکی۔ (تالیاں۔)

صدر پوتن — صدر پوتن کو آج ایک ایسی صورت حال کا سامنا ہے جس کا اس کے خیال میں ایک سال پہلے کوئی امکان نہیں تھا۔ دنیا کی جمہوریتیں کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہوئی ہیں۔ جبکہ دنیا کے مطلق العنان حکمران مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوئے ہیں۔

انتہائی افراتفری اور غیریقینی صورت حال کے لمحوں میں یہ جاننا انتہائی اہم ہوتا ہے کہ آپ کس کے حق میں کھڑے ہیں اور اس سے بہت فرق پڑتا ہے کہ آپ کے ساتھ کون کھڑا ہے۔

پولینڈ کے عوام کو اس کا بخوبی علم ہے۔ آپ کو اس کا پتہ ہے۔ درحقیقت آپ جانتے ہیں – پولینڈ میں کسی بھی دوسرے شخص کے مقابلے میں آپ بہتر جانتے ہیں۔ کیونکہ یکجہتی کا یہی مطلب ہے۔

تقسیم اور جبر کے ذریعے دہائیوں کی آہنی ہاتھوں سے کی جانے والی کمیونسٹ حکمرانی کے دوران  وارسا بغاوت کے بعد اس خوبصورت شہر کو تباہ کیا گیا تو اس سب کچھ کو پولینڈ اس لیے برداشت کر گیا کیونکہ آپ ایک ساتھ کھڑے رہے۔

یبلا روس کی حزب اختلاف کے بہادر رہنما اور عوام اپنی جمہوریت کے لیے جنگ اسی طرح  لڑنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔

مالدووا کے عوام کے  آزاد زندگی گزارنے کے عزم نے — (تالیاں) – انہیں آزادی دلائی اور انہیں یورپی یونین کی رکنیت کی راہ پر گامزن کیا۔

صدر سینڈو اج ہمارے درمیان موجود ہیں۔ مجھے پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ لیکن مجھے آپ کی حمایت کرنے پر فخر ہے۔ اُن کے لیے بہت سی تالیاں (تالیاں۔)

اس جنگ کا ایک سال گزر جانے کے بعد پوتن کو ہمارے اتحاد کی طاقت کے بارے میں اب کوئی شک نہیں رہا۔ اسے ہمارے عزم کے بارے میں شک ہے۔ وہ ہماری یوکرین کی مسلسل حمایت کے بارے میں شک میں ہے۔ انہیں نیٹو کے متحد رہنے پر شک ہے۔

لیکن اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ یوکرین کے لیے ہماری حمایت میں کوئی کمی نہیں آئے گی، نیٹو تقسیم نہیں ہو گا، اور ہم نہیں تھکیں گے۔ (تالیاں۔)

صدر پیوٹن کی زمین اور اقتدار کی ہوس ناکام ہو جائے گی۔ اور یوکرینی عوام کی اپنے ملک سے محبت غالب رہے گی۔

دنیا کی جمہوریتیں آج، کل اور ہمیشہ آزادی کی حفاظت میں کھڑی رہیں گیں۔ (تالیاں۔) کیونکہ — یہی وہی کچھ ہے جو یہاں داؤ پر لگا ہوا ہے یعنی آزادی۔

یہی وہ پیغام ہے جو میں کل براہ راست یوکرین کے عوام کے لیے کیف لے کر گیا تھا۔

جب صدر زیلنسکی دسمبر میں امریکہ آئے تو —  اقتباس – انہوں نے کہا کہ یہ جدوجہد دنیا اور ہمارے بچوں اور پوتے پوتیوں —  اور پھر ان کے بچوں اور پوتے پوتیوں پر واضح کرے گی کہ انہیں کس طرح زندہ رہنا ہے۔

وہ محض یوکرین کے بچوں اور پوتے پوتیوں کی بات نہیں کر رہے تھے۔ بلکہ وہ ہم سب کے، آپ کے اور میرے  بچوں اور پوتے پوتیوں کے بارے میں بات کر رہے تھے۔

ہم آج ایک بار پھر وہی کچھ دیکھ رہے ہیں جو کچھ پولینڈ کے لوگوں اور سارے یورپ کے لوگوں نے دہائیوں قبل دیکھا تھا یعنی آمریتوں کی بھوک مٹائی نہیں جا سکتی۔ اِن کی بہرصورت مخالفت ہونا چاہیے۔

آمر صرف ایک لفظ سمجھتے ہیں: "نہیں۔" "نہیں۔" "نہیں۔" (تالیاں۔)

"نہیں آپ میرا ملک نہیں لے سکتے۔" نہیں آپ میری آزادی نہیں چھین سکتے۔" "نہیں آپ میرا مستقبل نہیں چھین سکتے۔"

اور آج کی رات میں وہی بات دہراؤں گا جو میں نے گزشتہ برس اسی جگہ کہی تھی: ایک آمر جو دوبارہ سلطنت کھڑی کرنے پر تلا ہوا ہے وہ لوگوں کی آزادی کے ساتھ محبت کو کبھی بھی کم نہیں کر سکے گا۔ سفاکیت آزاد لوگوں کے عزم کو کبھی بھی ختم نہیں کر سکتی۔ اور روس یوکرین کو کبھی بھی فتح نہیں کر سکے گا۔ کبھی نہیں۔ (تالیاں۔)

کیونکہ آزاد لوگ ناامیدی اور تاریکی کی دنیا میں رہنے سے انکار کر دیتے ہیں۔

آپ جانتے ہیں کہ ہر لحاظ سے یہ سال ایک غیرمعمولی سال رہا ہے۔

روسی افواج اور کرائے کے فوجیوں کی طرف سے کی جانے والی غیر معمولی بربریت۔ انہوں نے کسی شرم و ندامت کے بغیر انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا۔ انہوں نے شہریوں کو نشانہ بنایا اور انہیں موت اور تباہی سے دوچار کیا۔ عصمت دری کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ یوکرین کا مستقبل چوری کرنے کی کوشش میں یوکرین کے بچوں کو چوری کرنے کی کوششیں کیں۔ ریلوے سٹیشنوں، زچگی کے ہسپتالوں، سکولوں اور یتیم خانوں پر بمباری کی۔

روس یوکرینی عوام کے خلاف جو مظالم ڈھا رہا ہے ان سے کوئی بھی چشم پوشی نہیں کر سکتا۔ یہ قابل نفرت ہے۔ یہ قابل نفرت ہے۔

تاہم یوکرینی عوام اور دنیا کا ردعمل بھی غیرمعمولی چلا آ رہا ہے۔

یوکرین پر بم برسنے کے آغاز اور روسی ٹینکوں کے چڑھ دوڑنے کے ایک سال بعد یوکرین اب بھی آزاد اور کھلا ہے۔ (تالیاں۔)

یوکرینی جنگجوؤں نے خیرسان سے لے کر خارکیف تک اپنے علاقے واپس لے لیے ہیں۔

روس نے گزشتہ برس جتنے علاقے پر قبضہ کیا تھا اُس کے 50 فیصد پر ایک بار پھر یوکرین کا نیلا اور زرد پرچم بڑی شان سے لہرا رہا ہے۔

صدر زیلنسکی جمہوری طور پر منتخب کردہ ایک ایسی حکومت کی اب بھی قیادت کر رہے ہیں جو یوکرینی عوام کی رائے کی نمائندگی کرتی ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سمیت دنیا روس کی جارحیت کی مذمت کرنے اور منصفانہ امن کی حمایت میں کئی بار ووٹ دے چکی ہے۔

اقوام متحدہ میں رکن ممالک یوکرین کے حق میں بھاری اکثریت سے ووٹ دیتے چلے آ رہے ہیں۔

اکتوبر میں اقوام متحدہ میں 143 ممالک نے روس کے غیر قانونی الحاق کی مذمت کی۔ صرف چار — پوری اقوام متحدہ میں سے صرف  چار نے — روس کے حق میں ووٹ دیا۔ چار۔

لہذا آج رات ایک بار پھر میں روس کے لوگوں سے مخاطب ہوں۔

امریکہ اور یورپ کے ممالک روس کو کنٹرول یا تباہ کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ جیسا کہ پوتن نے آج کہا ہے مغرب روس پر حملہ کرنے کی سازش نہیں کر رہا تھا۔ اور لاکھوں روسی شہری جو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ محض امن سے رہنا چاہتے ہیں دشمن نہیں ہیں۔

اس جنگ کی کبھی بھی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ یہ ایک سانحہ ہے۔

صدر پوتن نے اس جنگ کا انتخاب کیا۔ ہر روز جنگ کا جاری رہنا اُن کا انتخاب ہے۔ وہ ایک لفظ سے جنگ ختم کر سکتے تھے۔

یہ سادہ سی بات ہے۔ اگر روس یوکرین پر حملے کرنے بند کر دے تو اس سے جنگ ختم ہو جائے گی۔ اگر یوکرین روس کے کے خلاف اپنا دفاع کرنا چھوڑ دے تو اس سے یوکرین کا خاتمہ ہو جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ ہم یہ یقینی بنا رہے ہییں کہ یوکرین اپنا دفاع کر سکے۔

امریکہ نے 50 سے زائد ممالک کا ایک عالمی اتحاد تشکیل دیا ہے تاکہ یوکرین کے بہادر جنگجوؤں تک انتہائی اہم ہتھیار اور سامان فضائی دفاعی نظام، توپ خانہ، گولہ بارود، ٹینک، اور بکتر بند گاڑیاں پہنچائی جا سکیں۔

یورپی یونین اور اس کے رکن ممالک یوکرین کے ساتھ بے مثال وابستگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے باہر نکلے ہیں۔ اِس میں محض سکیورٹی سے متعلہ امداد ہی نہیں بلکہ اقتصادی اورانسانی امداد، پناہ گزینوں کی مدد اور بہت ساری دیگر امداد بھی ہے۔

آج کی رات یہاں آپ سب کے نام: ایک لمحے کے لیے غور کریں۔ اور میں یہ بات سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں: اپنے اردگرد ایک دوسرے کو دیکھیں۔ دیکھیے تو سہی کہ آپ نے اب تک کیا کچھ کر دیا ہے۔

پولینڈ اس جنگ سے 15 لاکھ سے زائد مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔ خدا آپ پر رحمتیں نازل کرے. (تالیاں۔)

پولینڈ کی سخاوت، اپنے دلوں اور اپنے گھروں کو کھولنے کی آپ کی رضامندی، غیر معمولی ہے۔

امریکی عوام بھی ہمارے اس عزم میں ہمارے ساتھ متحدہ ہیں۔

ملک کے طول و عرض میں بڑے شہروں اور چھوٹے قصبوں میں امریکی گھروں پر یوکرینی پرچم لہرا رہے ہیں۔

گزشتہ برس امریکی کانگریس میں ڈیموکریٹک اور ری پبلیکن آزادی کے حق میں کھڑے ہونے کے لیے متحد ہو گئیں۔

امریکی ایسے ہی ہیں اور امریکی ایسا ہی کرتے ہیں۔ (تالیاں۔)

صدر پوتن کی جنگ کے عالمی نتائج سے نمٹنے کے لیے دنیا بھی متحد ہو رہی ہے۔

پوتن نے دنیا کو بھوکا مارنے کی کوشش کی بحیرہ اسود پر واقع بندرگاہوں کو مسدود کر کے یوکرین کو اپنے اناج کی برآمد سے روک دیا۔ وہ عالمی غذائی بحران مزید سنگین ہوگیا جس نے بالخصوص افریقہ کے ترقی پذیر ممالک کو شدید متاثر کیا۔

اس کے برعکس امریکہ اور جی 7 اور دنیا بھر کے شراکت داروں نے اس غذائی قلت کا جواب اس بحران سے نمٹنے اور عالمگیر غذائی رسدوں کو بڑہانے کے اپنے تاریخی وعدوں سے دیا۔

اور اس ہفتے میری اہلیہ جِل بائیڈن اس انتہائی اہم مسئلے کی طرف توجہ دلانے میں مدد کرنے کی خاطرافریقہ کا سفر کر رہی ہیں۔

ہماری وابستگی یوکرین کے عوام اور یوکرین کے مستقبل کے ساتھ ہے — ایک ایسا یوکرین جو آزاد، خود مختار اور جمہوری ہو۔

یہ ان لوگوں کا خواب تھا جنہوں نے 30 سال پہلے یوکرین کی آزادی کا اعلان کیا تھا — جنہوں نے نارنجی انقلاب اور وقار کے انقلاب کی قیادت کی تھی؛ جو میڈان میں برف اور آگ کے مقابلے میں ڈتے رہے اور وہ سو بہشتی جو وہاں مارے گئے؛ اور وہ لوگ جو آج بھی  بدعنوان بنانے، ڈرانے دھمکانے اور کنٹرول کرنے کی کریملن کی کوششوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔

یہ وطن سے محبت کرنے والے ان یوکرینیوں کا خواب ہے جو ڈونباس میں روس کی جارحیتوں کے خلاف برسوں برسرپیکار رہے اور ان ہیروز کا جنہوں نے اپنے پیارے یوکرین کی خدمت کرتے ہوئے اپنی جانیں دیں، اپنا سب کچھ لٹا دیا۔

مجھے صدر زیلنسکی کے ہمراہ اُن کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کل کیف میں اُن کی یادگاروں پر جانے کا اعزاز حاصل ہوا جنہوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔

امریکہ اور اس کے شراکت دار یوکرین کے اساتذہ، اس کے ہسپتالوں کے عملے کے اراکین، ہنگامی حالات میں مدد کرنے والوں، اور اُن ورکروں کے ساتھ کھڑے ہیں جو روس کی ظالمانہ بمباری کے باوجود بجلی کو برقرار رکھنے کی جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔

ہم اس جنگ کے اُن لاکھوں پناہ گزینوں کے ساتھ کھڑے ہیں جن کا یورپ اور امریکہ میں خاص طور پر پولینڈ میں خیرمقدم کیا گیا ہے۔

پورے یورپ میں عام لوگ جو کچھ کر سکتے تھے انہوں نے وہ کچھ کیا اور وہ ایسا کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پولینڈ کے کاروبار، سول سوسائٹی، ثقافتی رہنماؤں نے– بشمول پولینڈ کی خاتونِ اول، جو آج رات ہمارے درمیان موجود ہیں — دلجمعی اور عزم مصمم کے ساتھ رہنمائی کی اور انسانی روح سے متعلق جو کچھ اچھا ہے اُس کا مظاہرہ کیا۔

محترمہ خاتون اول صاحبہ ہم آپ سے محبت کرتے ہیں۔ آپ سب کا شکریہ. (تالیاں۔)

میں وہ وقت کبھی نہیں بھولوں گا جب گزشتہ برس یوکرین سے تازہ آنے والے پناہ گزینوں کو میں وارسا میں ملا۔ چہروں سے وہ  تھکے اور خوفزدہ دکھائی دیتے تھے – انہوں نے بچوں کو اپنے ساتھ لگا رکھا تھا اور پریشان تھے کہ شاید وہ اپنے والدوں، اپنے شوہروں، اپنے بھائیوں یا بہنوں سے کبھی بھی دوبارہ نہ مل پائیں۔

اُن کی زندگیوں کے اِن تاریک ترین لمحات میں، آپ نے، پولینڈ کے لوگوں نے، انہیں حفاظت اور روشنی فراہم کی۔ آپ نے انہیں گلے لگایا۔ آپ نے انہیں حقیقی معنوں میں گلے لگایا۔ میں نے دیکھا۔ میں نے ان کے چہروں کے تاثرات دیکھے۔

اسی دوران ہم سب نے مل کر اس بات کو یقینی بنایا کہ روس اپنی زیادتیوں کا خمیازہ بھگتے۔

ہم تاریخ میں کسی بھی ملک پر لگائی گئی اتنی زیادہ پابندیوں کے نظام کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اور ہم اس ہفتے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر مزید پابندیوں کا اعلان کرنے جا رہے ہیں۔

ہم ان لوگوں کا احتساب کریں گے جو اس جنگ کے ذمہ دار ہیں۔ اور ہم اُن جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف کیے گئے جرائم کے حوالے انصاف حاصل کرنے کی کوشش کریں گے روسی جن کا  مسلسل ارتکاب کرتے چلے جا رہے ہیں۔

آپ کو علم ہے کہ ہم نے گزشتہ برس مل کر جو تمام کامیابیاں حاصل کی ہیں اُن پر فخر کرنے کے لیے ہمارے پاس بہت کچھ ہے۔ تاہم جب ہم آنے والے سال پر نظر ڈالیں تو ہمیں ایمانداری سے کام لینا ہوگا اور آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گیں۔

آزادی کا دفاع ایک دن یا ایک سال کا کام نہیں ہے۔ یہ کام ہمیشہ مشکل ہوتا ہے. یہ ہمیشہ اہم ہوتا ہے.

ایسے میں جب یوکرین روسی حملوں کے خلاف اپنا دفاع جاری رکھے ہوئے ہے اور اپنے جوابی حملے کر رہا ہے اِن حالات میں سخت اور انتہائی تلخ دن، فتوحات اور سانحے پیش آتے رہیں گے۔ لیکن یوکرین آنے والوں دنوں کی جنگ کے لیے آہنی عزم سے لیس ہے۔ اور امریکہ اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ہمراہ ایسے میں یوکرین کی پشت پناہی جاری رکھے گا جب وہ اپنا دفاع کر رہا ہے۔

میں اگلے سال 2024 میں امریکہ میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں نیٹو کے ہر ایک رکن ملک کی میزبانی کروں گا۔ ہم ایک ساتھ مل کر دنیا کی تاریخ کے سب سے مضبوط دفاعی اتحاد — نیٹو کی 75 ویں سالگرہ منائیں گے۔

اور — (تالیاں) — اور کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارے نیٹو اتحاد اور آرٹیکل 5 کے ساتھ امریکہ کی وابستگی چٹان کی طرح مضبوط ہے۔ (تالیاں۔) اور نیٹو کا ہر رکن یہ جانتا ہے۔ اور روس بھی یہ اچھی طرح جانتا ہے۔

کسی ایک پر حملہ سب کے خلاف حملہ ہوگا۔ یہ ایک مقدس حلف ہے۔ (تالیاں۔) نیٹو کی سرزمین کے ہر ایک انچ کا دفاع کرنے کا ایک مقدس حلف۔

گزشتہ ایک برس کے عرصے کے دوران امریکہ روسی جارحیت کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ ایک غیر معمولی اتحاد کی شکل میں اکٹھا ہوا ہے۔

لیکن ہمارے سامنے جو کام ہے وہ صرف یہی نہیں ہے ہم کس کے خلاف ہیں۔ بلکہ اس کا تعلق اس سے ہے کہ ہم کس چیز کے لیے کھڑے ہیں۔ ہم کس قسم کی دنیا بنانا چاہتے ہیں؟

ہمیں اس اتحاد کی طاقت اور صلاحیتوں کو لے کر اِس اتحاد کو پوری دنیا کے لوگوں کی زندگیوں کو اوپر لے جانے، صحت کو بہتر بنانے، خوشحالی میں اضافہ کرنے، کرہ ارض کو محفوظ رکھنے، امن اور سلامتی قائم کرنے، ہر ایک کے ساتھ عزت اور احترام کا سلوک کرنے کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ دنیا کی جمہوریتوں کو ہمارے لوگوں کی خدمت کرنا ہو گی۔

آج رات جب ہم یہاں اکٹھے ہیں میری نظر میں دنیا ایک اہم موڑ پر کھڑی ہے۔ آنے والے پانچ برسوں میں ہم جو فیصلے کریں گے وہ آنے والی دہائیوں تک ہماری زندگیوں کی راہ متعین کرتے اور اُن کی صورت گری کرتے رہیں گے۔

یہ بات امریکیوں پر بھی صادق آتی ہے ۔ یہ بات دنیا کے لوگوں پر بھی صادق آتی ہے۔

جہاں فیصلے ہمیں کرنا ہیں وہیں اصول اور جو کچھ  داؤ پر لگا ہے وہ ابدی ہیں۔ ہمیں افراتفری اور استحکام،  تعمیر اور تخریب، امید اور خوف، اور انسانی روح کو بلندیوں پر لے جانے والی جمہوریت اور اسے کچلنے والے آمر کے سفاک ہاتھ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ ہمیں مکمل محدودیت اور امکانات میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے یعنی اس قسم کے امکانات جو اُس وقت پیدا ہوتے ہیں جب لوگ قید و بند میں نہیں آزادی میں رہتے ہیں۔ آزادی میں۔

آزادی۔ آزادی سے زیادہ میٹھا لفظ کوئی نہیں۔ آزادی سے افضل مقصد کوئی نہیں۔ آزادی سے بڑی امنگ کوئی نہیں۔ (تالیاں۔)

امریکی یہ جانتے ہیں اور آپ جانتے ہیں۔ اور جو کچھ ہم اب کر رہے ہیں اُس کا کیا جانا بہت ضروری ہے تاکہ ہمارے بچے اور بچوں کے بچے بھی اسے جان پائیں۔

آزادی۔

ظالموں کی دشمن اور بہادروں کی امید اور زمانوں کی سچائی۔

آزادی۔

ہمارے ساتھ کھڑے ہوں۔ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

آئیےعقیدے اور یقین کے ساتھ آگے بڑھیں۔ اور تاریکی کے نہیں بلکہ روشنی کے، جبر کے نہیں بلکہ آزادی کے، اسیری کے نہیں بلکہ آزادی کے جی ہاں آزادی کے ساتھی بننے کے مستقل عزم کے ساتھ آگے بڑھیں.

خدا آپ سب پر مہربانیاں فرمائے۔  خدا ہماری افواج کی حفاظت فرمائے۔ اور خدا یوکرین کے ہیروز اور ان تمام لوگوں پر مہربانیاں فرمائے جو دنیا میں آزادی کا دفاع کرتے ہیں۔

آپ کا شکریہ، پولینڈ۔ آپ کا شکریہ، آپ کا شکریہ، آپ جو کر رہے ہیں اس کے لیے آپ کا شکریہ۔ (تالیاں) خدا آپ سب پر مہربانیاں فرمائے۔

6:00 شام سی ای ٹی


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.whitehouse.gov/briefing-room/speeches-remarks/2023/02/21/remarks-by-president-biden-ahead-of-the-one-year-anniversary-of-russias-brutal-and-unprovoked-invasion-of-ukraine/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔


This email was sent to stevenmagallanes520.nims@blogger.com using GovDelivery Communications Cloud on behalf of: Department of State Office of International Media Engagement · 2201 C Street, NW · Washington, DC · 20520 GovDelivery logo

No comments:

Page List

Blog Archive

Search This Blog

Opinion Today: Who won the vice-presidential debate?

A majority of our writers named one clear winner. View in browser | nytimes.com October 2, 2024 By John Guida Senior Staff Editor, Opinion...