Monday, January 24, 2022

وزیر خارجہ اینٹنی جے بلنکن کی پریس کانفرنس

Department of State United States of America

یہ ترجمہ امریکی دفترخارجہ کی جانب سے ازراہ نوازش پیش کیا جارہا ہے۔



امریکی دفتر خارجہ
ترجمان کا دفتر
20 جنوری، 2022

انٹرکانٹینینٹل ہوٹل
جینیوا، سوئٹزرلینڈ

وزیر خارجہ بلنکن: سہ پہر بخیر۔ وزیر خارجہ لاؤرو اور میں نے کچھ ہی دیر پہلے اپنی ملاقات ختم کی ہے اور میں اپنی بات کے آغاز میں سوئزر لینڈ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جس نے ہماری میزبانی کی۔ یہ اس کی روایتی میزبانی ہے جس کی ہم بے حد قدر کرتے ہیں۔

میں گزشتہ ہفتے امریکہ۔ روس تزویراتی استحکام سے متعلق بات چیت۔ نیٹو۔ روس کونسل اور او ایس سی ای کے اجلاسوں میں یوکرین کے بحران اور یورپ کی سلامتی سے متعلق وسیع تر امور پر بات چیت کرنے کے بعد جینیوا آیا ہوں۔ ہمارا مقصد یہ تعین کرنا تھا کہ آیا روس یوکرین کی صورتحال کو معمول پر لانے اور بالاآخر سفارت کاری اور بات چیت کے ذریعے ہمارے ساتھ باہمی اختلافات دور کرنے کے لیے سفارتی راہ اختیار کرنے اور دیگر ضروری اقدامات کے لیے تیار ہے یا نہیں۔

آج وزیر خارجہ لاؤرو کے ساتھ کُھل کر اور بامعنی انداز میں بات چیت ہوئی۔ میں نے انہیں امریکہ اور ہمارے یورپی اتحادیوں اور شراکت داروں کے موقف سے آگاہ کیا کہ ہم یوکرین کی خودمختاری اور زمینی سالمیت کی حمایت میں مضبوطی سے کھڑے ہیں۔ ہمارا موقف واضح ہے کہ اگر روس کی افواج نے یوکرین کی سرحد عبور کی تو اسے ایک نیا حملہ سمجھا جائے گا۔ امریکہ اور ہمارے شراکت دار اور اتحادی اس کا فوری، سخت اور متحدہ حیثیت میں جواب دیں گے۔

ہم اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ بھی جانتے ہیں کہ روس کے پاس فوجی کارروائی کے علاوہ بھی جارحیت کے بہت سے ہتھکنڈے ہیں جن میں سائبر حملے، نیم فوجی چالیں اور کھلم کھلا فوجی کارروائی کے بغیر جارحانہ طور پر اپنے مفادات کی تکمیل کے دیگر ذرائع شامل ہیں۔ اس طرح کی روسی جارحیت کا بھی فیصلہ کن، پورا اور متحدہ حیثیت میں جواب دیا جائے گا۔

یہ بدھ کو یوکرین میں صدر زیلینسکی، وزیر خارجہ کولیبا، گزشتہ روز جرمنی میں میری جرمن، برطانوی، فرانسیسی اور یورپی یونین کے ہم منصبوں اور جرمنی کے چانسلر شولز کے ساتھ ملاقاتوں کے نتیجے میں روس کو دیا جانے والا میرا واضح پیغام ہے۔ ہم سفارت کاری اور بات چیت کے ذریعے آگے بڑھنے کی راہ ڈھونڈنے کے اپنے عزم میں باہم متحد ہیں لیکن ہم اپنے اس ارادے پر بھی اسی مضبوطی سے قائم ہیں کہ اگر روس تصادم اور تنازع کا راستہ چُنتا ہے تو اسے ہماری جانب سے بڑے پیمانے پر نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

میں نے وزیر خارجہ لاؤرو سے ایک مرتبہ پھر یہ کہا کہ روس نے حالیہ ہفتوں میں اپنی سلامتی کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا ہے، امریکہ اور اس کے اتحادی اور شراکت دار ممالک دوطرفہ تعاون کے جذے کے تحت انہیں دور کرنے کے ممکنہ طریقوں سے کام لینے کے لیے تیار ہیں جس کا آسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ روس کو بھی ہمارے خدشات دور کرنا ہوں گے۔ روس سمیت ہم سبھی اس سلسلے میں بہت سے اقدامات کر سکتے ہیں تاکہ اس معاملے میں شفافیت میں اضافہ کیا جائے، خدشات میں کمی لائی جائے، ضبطِ اسلحہ کے اقدامات کو مزید موثر بنایا جائے اور اعتماد قائم کیا جائے۔

میں نے روس کے ایسے اقدامات کے حوالے سے ہمارے مخصوص خدشات سے وزیر خارجہ لاؤرو کو براہ راست آگاہ یا جو ناصرف یوکرین بلکہ پورے یورپ اور درحقیقت دنیا بھر میں امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہیں یا انہیں کمزور کرتے ہیں۔ میں نے تناؤ میں کمی لانے اور سلامتی کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے متعدد تجاویز بھی ان کے سامنے رکھیں۔ ہم نے یہ تجاویز اپنے شراکت داروں اور اتحادیوں کے ساتھ مشاورت سے تیار کی ہیں اور یہ ان معاملات سے متعلق ہیں جہاں ہم دوطرفہ تعاون کے اصول کی بنیاد پر آپس میں اتفاق رائے پیدا کر سکتے ہیں۔

وزیر خارجہ لاؤرو کے ساتھ میری بات چیت کوئی مذاکرات نہیں تھے بلکہ یہ خدشات اور تجاویز کا صاف گوئی سے تبادلہ تھا۔ میں نے ان پر واضح کیا کہ امریکہ اور ہمارے شراکت داروں اور اتحادیوں نے بعض امور اور بنیادی اصولوں کے دفاع کا عزم کر رکھا ہے۔ میں نے ان سے ایسے مسائل کا تذکرہ بھی کیا جن سے یوکرین کے لوگوں کا اپنا مستقبل خود تشکیل دینے کا حق متاثر ہوتا ہے۔ ایسے معاملات پر کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی اور اس پر کوئی بات نہیں ہو گی۔

وزیر خارجہ لاؤرو اور میں نے مستقبل کے لائحہ عمل پر بھی بات کی۔ میں یہ کہوں گا کہ انہوں نے ہماری بات سنی اور میری زبانی یہ جانا کہ ہمارا ناقابل فسخ اصول کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یوکرین کے بغیر یوکرین پر کوئی بات نہیں ہو گی، نیٹو کے بغیر نیٹو کے بارے میں کوئی بات نہیں ہو گی اور یورپ کے بغیر یورپ کے بارے میں کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ اپنی بات چیت کی بنیاد پر مجھے یقین ہے کہ ہم باہمی مفاہمتی سمجھوتوں کو تیار کرنے کے اس کام کو آگے بڑھا سکتے ہیں جس سے دوطرفہ سلامتی کی ضمانت ملتی ہو لیکن اس کا انحصار روس کی جانب سے یوکرین کے خلاف جارحیت روکے جانے پر ہے۔

چنانچہ اب روس کو انہی میں سے کوئی ایک راہ منتخب کرنی ہے۔ وہ سفارت کاری کا راستہ منتخب کر سکتا ہے جو امن اور سلامتی کی جانب لے جائے گا یا وہ دوسری راہ بھی اختیار کر سکتا ہے جو اسے صرف تصادم، سنگین نتائج اور عالمگیر مذمت کی طرف لے جائے گی۔ امریکہ اور یورپ میں ہمارے اتحادی اور شراکت دار دونوں راستوں پر روس کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں اور ہم یوکرین کا ساتھ دیتے رہیں گے۔

میں سمجھتا ہوں کہ وزیر خارجہ لاؤروو اب ہمارے موقف اور اس سے برعکس صورتحال کو بہتر طور سے جان گئے ہیں۔ آج ہونے والی بات چیت اس اعتبار سے مفید کہی جا سکتی ہے اور بڑی حد تک ہماری ملاقات کا مقصد بھی یہی تھا۔

لہٰذا آج دوپہر میں واشنگٹن واپس جاؤں گا جہاں میں صدر بائیڈن، ہماری قومی سلامتی کی پوری ٹیم اور کانگریس کے ارکان کے ساتھ مشاورت کروں گا جبکہ آنے والے دنوں میں اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ بھی اس پر بات چیت کی جائے گی۔ آج ہونے والی گفت و شنید کی بنیاد پر میں کہوں گا کہ وزیر خارجہ لاؤرو اور میں نے اتفاق کیا کہ سفارتی عمل جاری رکھنا ضروری ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ آنے والے دنوں میں اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مشاورتوں کے بعد ہمیں توقع ہو گی کہ ہم آئندہ ہفتے روس کو اپنے خدشات اور تجاویز کے بارے میں مزید تفصیل سے اور تحریری طور پر آگاہ کر سکیں گے۔ ہم نے اس کے بعد مزید بات چیت کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ ہم نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ مزید سفارتی بات چیت ہی آگے بڑھنے کی ترجیحی راہ ہو گی تاہم میں ایک مرتبہ پھر کہوں گا کہ یہ روس پر منحصر ہے کہ وہ کون سی راہ اختیار کرتا ہے۔

مجھے یہ تذکرہ بھی کرنا چاہیے کہ وزیر خارجہ اور مجھے ایران کے معاملے پر بات چیت کا موقع بھی ملا جو اس امر کی مثال ہے کہ کیسے امریکہ اور روس سلامتی سے متعلق باہمی دلچسپی کے امور پر اکٹھے کام کر سکتے ہیں۔ جے سی پی او اے کی تعیمل کی جانب دوطرفہ واپسی سے متعلق ایران کے ساتھ ہونے والی بات چیت فیصلہ کن موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ اگر آئندہ چند ہفتوں میں اس پر کوئی معاہدہ نہ ہوا تو ایران کی جانب سے اس کے جوہری پروگرام پر جاری پیش رفت اس کے لیے جے سی پی او اے کی جانب واپسی کو ناممکن بنا دے گی۔

تاہم اِس وقت ایک چھوٹا سا راستہ کھلا ہے جس کے ذریعے اس بات چیت کو کامیاب بنایا جا سکتا ہے اور تمام فریقین کے باقی ماندہ خدشات دور کیے جا سکتے ہیں۔ ہم نے اس حوالے سے آج ہی کسی طرح کی بڑی کامیابیوں کی توقع نہیں کی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایک دوسرے کے خدشات اور ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کی بات ہو تو اِس وقت ہم ایک واضح راہ پر کھڑے ہیں۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ آنے والے دنوں میں اس حوالے سے کیا سامنے آتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی مجھے آپ کے سوالات لے کر خوشی ہو گی۔

نیڈ پرائس: اینڈریا مچل۔

سوال: شکریہ۔ جناب وزیر خارجہ آپ کا شکریہ۔ مسٹر لاؤرو نے آج ہزیانی باتوں کا تذکرہ کیا اور کہا کہ مغرب روس کے حملے کی بابت ہزیانی باتیں کر رہا ہے جس کا مقصد یوکرین کو اشتعال دلانا ہے۔ صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ اب تک جو کچھ ہوا ہے اسے دیکھتے ہوئے وہ سمجھتے ہیں کہ صدر پوٹن کچھ نہ کچھ کریں گے کیونکہ انہیں کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔

چنانچہ آج مسٹر لاؤرو کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے بعد آپ پوٹن کے ارادوں کے بارے میں کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں؟ کیا آپ اس پر کوئی بات کریں گے کہ وہ اپنی جارحیت ختم کر دیں گے جو آپ کے مطابق کسی بھی مثبت معاہدے کی راہ میں رکاوٹ ہے؟

وہ کہتے ہیں کہ آپ اپنا ردعمل تحریری طور پر دیں گے جس کی آپ نے بھی ابھی تصدیق کی ہے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ یہ ان کی بنیادی تجاویز کے مطابق ہوں جس کے بارے میں آپ اور امریکی انتظامیہ میں سبھی کا کہنا ہے کہ ان پر بات شروع نہیں ہو سکتی۔ میرا مطلب نیٹو کی توسیع سے متعلق تجاویز سے ہے۔ لہٰذا مجھے یہ پوچھنا ہے کہ کیا آپ کے تحریری جوابات میں ان کے لیے نیٹو میں توسیع سے متعلق کوئی مختلف بات ہو گی جس کے بارے میں آپ نے ابھی کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہو سکتی اور اس پر مذاکرات نہیں ہوں گے۔ چنانچہ ایسے میں آپ اس بحران کو ختم کرنے کے لیے کسی طرح کے باہمی رابطوں کے لیے کہاں گنجائش دیکھتے ہیں؟

جیسا کہ آپ نے کہا کہ آپ نے ایران پر بھی بات چیت کی۔ کیا مسٹر لاؤرو کے ساتھ بات چیت کے بعد آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ اور روس، امریکہ اور روس نیز آپ کے دیگر اتحادی ایران کو جوہری معاہدے کی پاسداری پر رضامند کر سکتے ہیں؟ اگر ایسا ہوا تو کیا امریکہ اسی وقت ایران سے پابندیاں اٹھانے پر رضامند ہو جائے گا؟ آپ کا بہت شکریہ۔

وزیر خارجہ بلنکن: اینڈریا آپ کا بہت شکریہ۔ پہلی بات یہ کہ ہم جذبات کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھ رہے۔ ہم حقائق اور تاریخ کی بنیاد پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ حقائق یہ ہیں کہ روس نے یوکرین کی سرحد پر بڑی تعداد میں فوج جمع کی ہے اور کر رہا ہے۔ حالیہ دنوں یہ تعداد 100,000 تک پہنچ گئی ہے جس میں بیلارس کی جانب تعینات کی گئی افواج بھی شامل ہیں اور اگر صدر پوٹن نے حملے کا فیصلہ کیا تو اس فوج کی بدولت روس کو جنوب، مشرق اور شمال سے یوکرین پر چڑھائی کی صلاحیت حاصل ہو جائے گی۔ ہم نے بہت سے تخریبی اقدامات کے منصوبے دیکھے ہیں جن میں سے بعض میں ضرورت سے زیادہ طاقت استعمال نہیں کرنا پڑتی۔ ان میں یوکرین کو غیرمستحکم کرنے اور حکومت کا تختہ الٹنے سمیت بہت سی چیزیں شامل ہیں۔

لہٰذا میں نے کہا ہے کہ اس کی بنیاد جذبات پر نہیں ہے۔ اس کی بنیاد حقیقت اور تاریخ پر ہے۔ روس نے 2014 میں مشرقی یوکرین کے علاقے ڈونباس میں جاری تنازع کو بھڑکاتے ہوئے یوکرین پر حملہ کیا اور کرائمیا پر قبضہ کر کے بزور طاقت یوکرین کی سرحدوں کو تبدیل کر دیا۔ ہم اسی حقیقت کو مدنظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہم نے روس کے حکام سے سنا ہے کہ وہ یوکرین پر حملے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ درحقیقت وزیر خارجہ لاؤرو نے آج میرے ساتھ ملاقات میں بھی یہی بات دہرائی۔ لیکن ہمارے مدنظر وہ صورتحال ہے جو سبھی کو دکھائی دے رہی ہے اور یہ روس کے الفاظ نہیں بلکہ اس کے اعمال اور افعال ہیں جو فرق ڈالتے ہیں۔ میں نے وزیر خارجہ لاؤرو کو تجویز دی جیسا کہ ہم تواتر سے دیتے چلے آئے ہیں کہ اگر روس دنیا کو قائل کرنا چاہتا ہے کہ اس کا یوکرین کے بارے میں کوئی جارحانہ ارادہ نہیں ہے تو اس کے لیے سب سے بہتر کام یہ ہو گا کہ وہ کشیدگی میں کمی لائے، یوکرین کی سرحدوں سے اپنی افواج کو پیچھے ہٹائے اور سفارت کاری اور مذاکرات میں شریک ہو۔ یہ وہ کام ہے جوہم نے آج کیا ہے اور آنے والے دنوں اور ہفتوں میں بھی یہ بات چیت جاری رکھیں گے۔

ہم نے ابتدا ہی سے یہ کہا ہے کہ ہم نہ صرف روس کی جانب سے سامنے لائے گئے خدشات کو دور کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں بلکہ اپنے خدشات بھی اس کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں جو بہت زیادہ ہیں اور ان کا تعلق روس کے اقدامات سے ہے جنہیں ہم یورپ اور درحقیقت اس سے بھی پرے سلامتی کو لاحق خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسی لیے اینڈریا، ہماری آج کی بات چیت، گزشتہ ہفتے امریکہ اور روس کے درمیان تزویراتی استحکام سے متعلق بات چیت، نیٹو۔ روس کونسل اور او ایس سی ای کے اجلاس میں ہونے والی گفت و شنید میں اہم بات یہ تھی کہ ہمیں یہ یقینی بنانا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے موقف اور ایک دوسرے کے خدشات کو پوری طرح سمجھ گئے ہیں۔

اس کے بعد اور اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ نہایت جامع مشاورت کے بعد صدر بائیڈن چاہتے تھے کہ میں روس کے ساتھ بات چیت کروں۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ ہم گزشتہ ہفتے جو کچھ سن چکے ہیں اور غالباً روسیوں کو بھی صدر پوٹن کو ہماری باتوں سے آگاہ کرنے کا موقع ملا ہو گا، تو اس کے بعد وزیر خارجہ لاؤرو کے ساتھ براہ راست بات چیت کر کے یہ تعین کیا جائے کہ آیا فریقین کے مابین مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے آگے بڑھنے کی کوئی راہ موجود ہے اور پھر یہ دیکھا جائے کہ ہم اس راہ پر کیسے چل سکتے ہیں۔ میں ایک مرتبہ پھر کہوں گا کہ آج ہونے والی ملاقات میں یہ اتفاق پایا کہ ہم روس کو اس کے خدشات دور کرنے کے حوالے سے اپنا ردعمل دیں گے اور اپنے خدشات کے ساتھ ساتھ کچھ تجاویز بھی غور کے لیے پیش کریں گے۔ جب روس کو اس دستاویز کا جائزہ لینے کا موقع مل جائے گا تو پھر ہم دوبارہ ملاقات کی منصوبہ بندی کریں گے اور دیکھیں گے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔

تاہم میں اس حوالے سے بھی واضح کر دوں کہ اب تک روس کسی حد تک سفارت کاری سے کام بھی لے رہا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ تناؤ بڑھانے کے اقدامات بھی کر رہا ہے، یوکرین کی سرحدوں پر اپنی افواج میں اضافہ کر رہا ہے، یوکرین کے خلاف جارحانہ اقدام کی مںصوبہ بندی جاری رکھے ہوئے ہے اور ایسے میں ہم اور ہمارے تمام اتحادی اور شراکت دار یہ یقینی بنانے کے لیے یکساں طور سے پرعزم ہیں کہ ہم روس پر یہ واضح کرنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھا رہے ہیں کہ روس کی جانب سے یوکرین کے خلاف کسی بھی طرح کی جارحیت کی صورت میں ہم فوری، سخت اور متحدہ حیثٰیت میں جواب دیں گے۔

مجھے آخر میں یہ کہنا ہے کہ آج ہونے والی بات چیت کی بنیاد پر میں سمجھتا ہوں کہ ہم دوطرفہ بنیادوں پر ایک دوسرے کے خدشات دور کر سکتے ہیں۔ ان میں ہماری فوجی سرگرمیوں میں بڑے پیمانے پر شفافیت لانے، خدشات میں کمی لانے، ضبطِ اسلحہ کے اقدامات اور اعتماد کی بحالی کے لیے دیگر طریقے اختیار کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں جو میرے خیال میں بعض ایسے خدشات کو دور کر سکتے ہیں جن کا روس نے اظہار کیا ہے اور اس میں بہت سے ایسے خدشات بھی شامل ہیں جن کا اظہار ہم نے کہا ہے۔

تاہم ایسی چیزوں کے بارے میں بھی اتنی ہی وضاحت بہت ضروری ہے جو ہم نہیں کریں گے اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہم ان بنیادی اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹیں گے جو ہم نے وضع کر رکھے ہیں اور جن کے دفاع کا عزم کر رکھا ہے۔ ان میں سے ایک نیٹو کی کھلے دروازوں کی پالیسی اور دوسرا اس اصول سے ہماری وابستگی ہے کہ کوئی ملک بزور طاقت کسی دوسرے ملک کی سرحدوں کی خلاف ورزی کر سکتا ہے اور نہ ہی انہیں تبدیل کر سکتا ہے۔ اسی طرح کوئی ملک دوسرے ملک کو اس کے انتخاب، اس کی پالیسیوں کے بارے میں ہدایات نہیں دے سکتا اور یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ اسے کس ملک سے دوستی رکھنا ہو گی اور ایسا اثرورسوخ نہیں بنا سکتا جس کے نتیجے میں ہمسایہ ممالک اس کی خواہش کے تابع رہیں۔ ہم ایسے اصولوں کو ترک نہیں کریں گے اور میں سمجھتا ہوں کہ روس یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہے۔

لہٰذا ہم نے گزشتہ ہفتے اور آج یہاں جینیوا میں جو جامع بات چیت کی ہے اس کی بنیاد پر میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے پاس بعض سلامتی کے حوالے سے دوطرفہ خدشات دور کرنے کی بنیاد اور ذریعہ موجود ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ آیا ایسا ہوتا ہے یا نہیں۔ اسی دوران ہم ان دونوں راستوں پر روس کا مضبوطی سے سامنا کرنے کی تیاری جاری رکھیں گے جو ہم نے اس کے سامنے پیش کیے ہیں۔ ان میں سے ایک سفارفت کاری اور مذاکرات اور دوسرا جارحیت، تصادم اور اس کے نتائج بھگتنے کا راستہ ہے۔

نیڈ پرائس: مائیکل کرولی۔

سوال: اور آپ ۔۔۔

نیڈ پرائس: اینڈریا میں معذرت خواہ ہوں۔ ہمارے پاس نہایت محدود وقت ہے۔ مائیکل کرولی۔

سوال: اور آپ کا ۔۔۔ ایران کے بارے میں سوال ۔۔۔ جناب ۔۔۔۔

وزیر خارجہ بلنکن: اوہ، میں معذرت چاہتا ہوں، میں ۔۔۔ (ناقابل سماعت) سے نمٹنے کے لیے۔ چنانچہ ایران پر، مجھے یہ کہنا ہے کہ روس بھی ہماری طرح اقدامات کی فوری ضرورت کا احساس رکھتا ہے اور ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا ہم آنے والے ہفتوں میں جوہری معاہدے کی دوطرفہ تعمیل کی جانب واپس آ سکتے ہیں یا نہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ روس ایران پر اپنے اثرورسوخ اور اس کے ساتھ اپنے تعلقات سے کام لیتے ہوئے اسے اِس فوری ضرورت کا احساس دلائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اگر ایران کی جانب سے ضروری ذمہ داریوں کی تکمیل سے انکار کے باعث ہم ایسا نہ کر سکے تو ہم ایران کے تجدید شدہ جوہری پروگرام سے لاحق خطرے سے نمٹنے کے لیے دیگر ذرائع سے کام لیں گے۔ ایران کا جوہری پروگرام اس معاہدے یعنی جے سی پی او اے کی بدولت معطل ہو گیا تھا اور بدقسمتی سے ہمارے اس معاہدے کو ترک کرنے کی صورت میں یہ دوبارہ فعال ہو گیا ہے اور ایران اپنا یہ خطرناک پروگرام دوبارہ شروع کر رہا ہے۔

وزیر خارجہ بلنکن: مائیکل

سوال: وزیر خارجہ بلنکن آپ کا شکریہ۔ امریکی سفارت کاروں اور روسیوں کے مابین چار غیرفیصلہ کن ملاقاتوں کے بعد کیا اب کسی کامیابی کے لیے اس عمل کو صدارتی سطح پر منتقل کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا صدر بائیڈن کو اس معاملے میں حقیقی پیش رفت کے لیے صدر پوٹن سے بات کرنا ہو گی؟

اگر اجازت ہو تو میں دوسرا سوال پوچھوں گا کہ برلن میں آپ نے اس بحران کے نتیجے میں ہونے والے ممکنہ نقصان کا خاکہ کھینچا جس میں سلامتی، سرحدوں کا تقدس اور عالمگیر امن و سلامتی یقینی بنانے کے اصول بھی شامل ہیں۔ کئی ہفتے پہلے صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ اس صورتحال میں امریکہ کی فوجی طاقت کا استعمال زیرغور نہیں ہے۔ اگرچہ مجھے یقین ہے کہ بہت سے امریکیوں کے لیے ہر طرح کی وجوہات کی بنا پر یہ بات بدیہی مفہوم رکھتی ہے لیکن مجھے یہ پوچھنا ہے کہ آیا آپ وضاحت سے بتا سکتے ہیں کہ امریکہ کی فوجی طاقت کا استعمال کیوں زیرغور نہیں لایا گیا؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کی صورت میں بھی امریکہ کی پوزیشن وہی رہے گی جس کا اظہار صدر بائیڈن نے کیا ہے؟ شکریہ۔

وزیر خارجہ بلنکن: پہلے میں آپ کے سوال کے دوسرے حصے کا جواب دوں گا کہ ہم نے یوکرین کے دفاع کے حوالے سے بہت سی باتیں واضح کر دی ہیں اور ہم اپنے یہ اقدامات جاری رکھیں گے۔ پہلی اور اہم ترین بات یہ ہے کہ ہم نے روس پر یہ واضح کرنے کے لیے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے قریبی اشتراک سے کام کیا ہے کہ اگر روس نے یوکرین پر نئی جارحیت کی تو اسے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ روس کے حملے کو روکنے اور روس کو جارحیت کی راہ پر چلنے سے باز رکھنے کے لیے ہونے والی بات چیت کا اہم جزو ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم نے یوکرین کو نمایاں عسکری معاونت بھی مہیا کی ہے اور درحقیقت اسی مالی سال میں ہی ہم نے دفاعی شعبے میں اس کی جتنی مدد کی ہے وہ 2014 کے بعد اب تک اسے دی جانے والی سب سے بڑی امداد ہے۔ ہماری جانب سے اس مدد کی فراہمی جاری ہے۔ ہمارے اتحادی اور شراکت دار بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ آخر میں ہم نے یوکرین کے خلاف روس کی مزید جارحیت کی صورت میں نیٹو کو اس کے مشرقی پہلو پر مضبوط بنانے کے لیے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔ ان تمام اقدامات کا مقصد روس پر یہ واضح کرنا ہے کہ اسے اپنے ممکنہ اقدامات کی کونسی قیمت چکانا پڑے گی اور کون سے نتائج کا سامنا کرنا ہو گا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ روس کو یوکرین کے خلاف مزید جارحیت سے باز رکھنے کا بہترین اور موثر ترین طریقہ ہے۔ یوکرین امریکہ اور یورپ کے دوسرے ممالک کا انتہائی قابل قدر شراکت دار ہے لیکن آرٹیکل 5 سے متعلق ہمارا وعدہ نیٹو اتحادیوں تک ہی محدود ہے اور یہ ایک ایسی چیز ہے جس پر ہم پوری طرح کاربند ہیں۔ یوکرین نیٹو کا رکن نہیں ہے اور وہ آرٹیکل 5 کے دائرے میں نہیں آتا لیکن ہم اس کا دفاع کرنے اور اس کی جانب کسی جارحیت کو روکنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانے کا عزم رکھتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا ہے، اگرچہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ آیا اس مسئلے کا کوئی سفارتی حل ممکن ہے یا نہیں تاہم اس کے ساتھ ساتھ ہم آنے والے دنوں اور ہفتوں میں یہ تمام کوششیں بھی جاری رکھیں گے۔

میں معذرت چاہتا ہوں، آپ کے سوال کا پہلا حصہ کیا تھا؟

سوال: اس عمل کو موجودہ رفتار سے زیادہ تیزی سے آگے بڑھانے کے لیے صدور کے درمیان بات چیت (ناقابل سماعت)

وزیر بلنکن: اوہ ہاں، آپ کا شکریہ۔ آج ہم نے جس پر بات پر اتفاق کیا وہ یہ ہے کہ ہم آئندہ ہفتے اپنی تجاویز اور روس کی جانب سے پیش کردہ خدشات کا جواب تحریری صورت میں اسے دیں گے جس میں یہ بھی شامل ہو گا کہ روس کے اقدامات کے بارے میں ہمارے کون سے خدشات ہیں اور یہ سب کچھ تحریری صورت میں اسے پیش کیا جائے گا۔ ہم آج ہونے والی بات چیت اور اُس دستاویز نیز روس کی جانب سے دی جانے والی دستاویز کی بنیاد پر ابتدائی طور پر اور کم از کم وزرائے خارجہ کی سطح پر آئندہ بات چیت کریں گے۔ اگر یہ بات چیت دونوں صدور کی ملاقات، بات چیت اور معاملات آگے بڑھانے کی کوشش میں باہمی رابطوں کے لیے مفید اور تعمیری ثابت ہوتی ہے تو میرے خیال میں ہم ایسا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہوں گے۔ صدر بائیڈن یہاں جینیوا میں صدر پوٹن سے ملاقات کر چکے ہیں۔ انہوں نے متعدد مواقع پر ان سے فون پر یا ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بھی بات چیت کی ہے۔ اگر ہم اور روس اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ دونوں صدور کے مابین بات چیت مسائل حل کرنے کا بہتر راستہ ہے تو یقیناً ہم ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

نیڈ پرائس: بین ہال۔

سوال: جناب وزیر خارجہ آپ کا شکریہ۔ آپ مزید بات چیت کر رہے ہیں، روسیوں کے ساتھ مزید گفت و شنید میں مصروف ہیں تاہم وہ اپنا کام کیے جا رہے ہیں۔ وہ یوکرین کی سرحد پر فوج جمع کر رہے ہیں اور یوکرین کو غیرمستحکم کرنے میں مصروف ہیں۔ یوکرین کو معاشی طور پر بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ کیا آپ کو اس نقصان کا اندازہ ہے جو وہ اپنے جارحانہ اقدمات کے ذریعے اسے پہنچا چکے ہیں اور اس کے جواب میں کیا آپ اس موقع پر روس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے پر غور نہیں کریں گے؟ امریکہ میں دونوں سیاسی جماعتیں اس کی حامی ہیں۔ یوکرین بھی اس کے لیے کہہ چکا ہے۔ آپ ایسا کیوں نہیں کریں گے؟

میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ نے متعدد مرتبہ کہا ہے کہ روس اپنی جارحیت کے لیے جو جواز پیش کر رہا ہے وہ جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔ مجھے یہ جاننا ہے کہ اگر وزیر خارجہ لاؤرو آپ کے سامنے بیٹھتے ہیں اور آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آپ سے یہی جھوٹی باتیں کہتے ہیں تو پھر آپ کو انہیں جواب دینے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر ایسا ہے تو انہیں آئندہ ہفتے تحریری جواب دینے کی کیا ضرورت ہے؟

وزیر خارجہ بلنکن: پہلی بات یہ کہ ہم روس کا مقابلہ کرنے کے اقدامات کا انتظار نہیں کر رہے۔ جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے ہم نے گزشتہ سال یوکرین کے لیے پہلے سے زیادہ فوجی امداد کا وعدہ کیا جس کی مالیت میرے خیال میں 650 ملین ڈالر کے قریب ہے اور یہ 2014 میں روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے بعد اب تک اسے دی جانے والی سب سے بڑی فوجی امداد ہے۔ ہم اسے اس مدد کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آنے والے ہفتوں میں ہم نے اسے مزید امداد پہنچانی ہے۔

جیسا کہ میں نے کہا، ہم دنیا بھر میں جامع سفارت کاری سے کام لے رہے ہیں اور یوکرین پر روس کی جارحیت کے خلاف اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کو اکٹھا کر رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہم نے یوکرین میں سرگرم روسی آلہ کاروں کے خلاف اقدامات کا اعلان کیا جو ملک کو غیرمستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا، ہم نے روس پر واضح کر دیا ہے کہ اگر اس نے یوکرین کے خلاف مزید جارحیت کی تو اسے معاشی طور پر فوری اور کڑی قیمت چکانا پڑے گی جس کے ساتھ ساتھ نیٹو کی اس کے کے مشرقی پہلو پر فوجی قوت میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔

ہم سفارت کاری اور مذاکرات سے کام لے رہے ہیں اور یہی میرا کام ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ ہم دفاع اور قوت مزاحمت کو متوازن رکھنے کی راہ پر بھی چل رہے ہیں۔ یہ چیزیں ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں بلکہ درحقیقت ایک دوسرے کو مضبوط کرتی ہیں۔ اسی لیے اگرچہ ہم بات چیت کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں تاہم اگر روس کی اشتعال انگیزی جاری رہتی ہے اور وہ یوکرین کی سرحد پر اپنی افواج میں اضافہ جاری رکھتا ہے تو ہم بھی ہر طرح کے دفاعی اقدامات کر رہے ہیں جن میں یوکرین کو دفاعی امداد کی فراہمی، نیٹو اتحاد کو مزید مضبوط بنانے کے اقدامات اور مالیاتی، معاشی اور دیگر پابندیوں کے حوالے سے روس کے خلاف بڑے پیمانے پر جوابی اقدامات کی وضاحت اور انہیں مزید مضبوط بنانا شامل ہے۔

لہٰذا ہم بیک وقت یہ دونوں کام کر رہے ہیں۔ جہاں تک ہمارے مابین بات چیت کا معاملہ ہے تو میرے خیال میں بعض اوقات ہم اور روس تاریخ کی مختلف انداز میں تشریحات کرتے ہیں۔ مجھے یہ کہنا ہے کہ آج ہم نے ان سے ایسی باتیں سنی ہیں جن سے ہم تاریخی حوالے سے اتفاق نہیں کرتے تاہم بڑی حد تک دیکھا جائے تو یہ بات چیت نزاعی نہیں تھی۔ یہ براہ راست، نپی تلی اور میرے خیال میں مفید بات چیت تھی۔ یہ دیکھنا اہم ہے کہ آیا ہم ان اختلافات کو سفارت کاری اور مذاکرات کے ذریعے دور کر سکتے ہیں یا نہیں۔ یہ واضح طور پر ایسا کرنے کی ترجیحی اور ذمہ دارانہ راہ ہے اور اس کا دارومدار روس کے طرز عمل پر ہے۔

نیڈ پرائس: اب ہم لارنٹ برخالٹر سے آخری سوال لیں گے۔

سوال: جناب وزیر خارجہ آپ کا شکریہ، میں سوئس ٹیلی ویژن آر ٹی ایس سے لارنٹ برخالٹر ہوں۔ مجھے ان اقدامات کے بارے میں جاننا ہے جو دونوں فریقین کی جانب سے کشیدگی میں کمی کے لیے اٹھائے جا سکتے ہیں۔ کیا آپ ہمیں ان کے بارے میں وضاحت سے کچھ بتا سکتے ہیں اور یہ بھی کہ یہ سب کچھ کتنے وقت میں ہو گا اور کون سا قدم پہلے اٹھایا جائے گا۔ مزید یہ کہ آپ کے خیال میں کریملن حالیہ صورتحال سے کون سا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے؟

وزیر خارجہ بلنکن: آپ کا آخری سوال غالباً صدر پوٹن سے پوچھا جائے تو بہتر ہو گا کیونکہ اس کا جواب انہی کے پاس ہے۔ میں ایک منٹ میں اس جانب واپس آؤں گا۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ رہا تھا، میرے خیال میں جیسا کہ ہم نے روس کے خدشات کو دیکھا ہے، جیسا کہ ہم نے ان کی بات کو سنا ہے اور جیسا کہ ہم نے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ جامع مشاورت کی اور ناصرف یوکرین کے حوالے سے بلکہ دوسری جگہوں پر بھی اور یورپ اور اس سے پرے دیگر ذرائع سے روس کے اقدامات کے نتیجے میں اپنی سلامتی کو درپیش سنگین خدشات پر نظر ڈالی ہے تو میرے خیال میں یہ کہنا درست ہے کہ یہ ایسے معاملات ہیں جن میں ہم یہ دیکھنے کے لیے مذاکرات اور سفارت کاری کی راہ اختیار کر سکتے ہیں کہ آیا ہم دوطرفہ بنیادوں پر باہمی سلامتی سے متعلق خدشات کو دور کرنے کی ایسی راہیں تلاش کر سکتے ہیں جن سے ہر ایک کی سلامتی بہتر بنانے میں مدد ملے جن میں ہم، ہمارے یورپی اتحادی اور شراکت دار اور خود روس بھی شامل ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے تجویز پیش کی ہے، شفافیت، اعتماد قائم کرنے کے اقدامات، فوجی مشقیں، ضبطِ اسلحہ کے معاہدے ۔۔۔ یہ تمام ایسے اقدامات ہیں جو ہم ماضی میں بھی کر چکے ہیں اور اگر ان پر سنجیدگی سے کام کیا جائے تو مجھے یقین ہے کہ ان سے تناؤ میں کمی لانے اور ایسے بعض خدشات دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ تاہم میں پھر کہوں گا کہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا ہم بامعنی انداز میں یہ سب کچھ کر سکتے ہیں یا نہیں۔ میرے خیال میں اس کا دارومدار روس پرہے کہ وہ دراصل کیا چاہتا ہے۔ یہ درست سوال ہے۔

میں ایک بات جاننا چاہتا ہوں اور میں نے آج وزیر خارجہ لاؤرو سے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ روس کے تناظر میں دیکھا جائے تو مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کریں کہ وہ اپنے بیان کردہ سلامتی کے مفادات اور وسیع تر تزویراتی مفادات کی تکمیل کے حوالے سے اپنے ان اقدامات کو کیسے دیکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے، جیسا کہ میں نے وزیر خارجہ لاؤرو سے کہا، آپ نے حالیہ برسوں میں بہت سے ایسے اقدامات کیے ہیں جنہوں نے عملی طور پر ہر اس چیز کو ختم کر دیا ہے جس کے بارے میں آپ کا کہنا ہے کہ آپ اس سے بچنا چاہتے ہیں۔

2014 میں روس کے یوکرین پر حملے، کرائمیا پر قبضے اور ڈونباس میں مداخلت سے پہلے یوکرین میں روس کے لیے پسندیدگی کی شرح 70 فیصد تھی جو اب 25 یا 30 فیصد رہ گئی ہے۔ 2014 سے پہلے اور کرائمیا پر قبضے اور ڈونباس میں داخلے سے پہلے یوکرین میں نیٹو اتحاد میں شمولیت کے حامیوں کی تعداد 25 سے 30 فیصد تھی۔ اب یہ 60 فیصد ہے۔ 2014 سے پہلے یہ صورتحال تھی کہ سرد جنگ کے اختتام کے بعد ہم یورپ میں اپنی افواج کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد میں کمی لانے کی راہ پر چل رہے تھے۔ 2014 کے بعد یہ ہوا کہ نیٹو نے روسی جارحیت کے باعث اپنے مشرقی پہلو کو مضبوط بنانے کی ضرورت اور ذمہ داری محسوس کی۔ 2014 کے بعد کئی سال تک ہم نے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوششیں کیں کہ وہ دفاعی اخراجات میں اضافہ کریں۔ ہمیں اس میں کامیابی ملی تاہم مجھے یہ کہنا ہے کہ یہ سب کچھ روس اور اس کے اٹھائے گئے اقدامات کے باعث ہوا۔

لہٰذا روس کے بیان کردہ تزویراتی مفادات اور خدشات کی بنیاد پر دیکھا جائے تو یہ سوال جنم لیتا ہے کہ اس کے افعال نے کیسے ان خدشات کو تقویت دی؟ روس کے اقدامات کا نتیجہ ان نتائج سے بالکل الٹ نکلا جو وہ چاہتا تھا۔ اب اگر روس یوکرین کے خلاف نئی جارحیت کرتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ روس کو جن خدشات کا سامنا ہے وہ مزید بڑھ جائیں گے۔ اس لیے مجھے امید ہے کہ وزیر خارجہ لاؤرو اور صدر پوٹن آنے والے دنوں اور ہفتوں کے بارے میں غور کرتے ہوئے ان چیزوں کو بھی مدنظر رکھیں گے۔ آپ کا شکریہ۔

نیڈ پرائس: جناب وزیر خارجہ آپ کا شکریہ۔


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/secretary-antony-j-blinken-at-a-press-availability-12/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔


This email was sent to stevenmagallanes520.nims@blogger.com using GovDelivery Communications Cloud on behalf of: Department of State Office of International Media Engagement · 2201 C Street, NW · Washington, DC · 20520 GovDelivery logo

No comments:

Page List

Blog Archive

Search This Blog

⚡ Elon's Hat Trick: The 3rd Company That Could Deliver MASSIVE Upside

I've got a question for you... ⚡ Elon's Hat Trick: The 3rd Company Th...