Tuesday, January 11, 2022

نائب وزیر خارجہ وینڈی آر شرمن کی امریکہ۔ روس تزویراتی توازن سے متعلق مذاکرات پر بریفنگ

Department of State United States of America

یہ ترجمہ امریکی دفترخارجہ کی جانب سے ازراہ نوازش پیش کیا جارہا ہے۔



امریکی دفتر خارجہ
دفتر برائے ترجمان
آن دی ریکارڈ بریفنگ
10 جنوری، 2022

بذریعہ ٹیلی کانفرنس

نیڈ پرائس: آپ میں سے جو لوگ امریکہ میں موجود ہیں انہیں صبح بخیر اور جو یورپ میں ہیں انہیں سہ پہر بخیر۔ روس کے ساتھ تناؤ میں کمی لانے کی کوشش سے متعلق ہماری سفارت کاری کے بارے میں صحافیوں کے ساتھ اس بریفنگ میں شمولیت پر آپ کا شکریہ۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں یہ نائب وزیر خارجہ وینڈی آر شرمن کے ساتھ آن دی ریکارڈ پریس بریفنگ ہے جنہوں نے حال ہی میں اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ تزویراتی توازن سے متعلق مذاکرات کا یہ دور مکمل کیا ہے۔ ہم اس کال کی تفصیلات نشر اور شائع کرنے پر وقت کی پابندی عائد نہیں کریں گے۔ میں اپنی بات دہراؤں گا کہ یہ نائب وزیر خارجہ کے ساتھ آن دی ریکارڈ کال ہے جس کی تفصیلات نشر و شائع کرنے پر وقت کی کوئی پابندی نہیں اور اس کے ساتھ ہی میں نائب وزیر خارجہ شرمن سے کہوں گا کہ وہ افتتاحی کلمات کہیں جس کے بعد ہم آپ سے سوالات لیں گے۔

نائب وزیر خارجہ شرمن: نیڈ آپ کا بہت شکریہ اور ہمارے ساتھ شمولیت پر میں آپ سب لوگوں کی بھی بہت مشکور ہوں۔ میں سوئزرلینڈ میں جنیوا سے آپ کے ساتھ بات کر رہی ہوں۔

تقریباً نصف گھنٹہ پہلے ہم نے یہاں جنیوا میں روسی وفد کے ساتھ تزویراتی توازن سے متعلق دوطرفہ بات چیت کا غیرمعمولی دور مکمل کیا ہے۔

جنیوا میں امریکی سفارت خانے میں ہماری قریباً آٹھ گھنٹے سے زیادہ وقت تک کُھل کر اور کھری بات چیت ہوئی۔

گزشتہ سال جون میں صدر بائیڈن اور صدر پوٹن کی جنیوا میں ملاقات کے بعد یہ تیسرا موقع ہے جب امریکہ اور روس تزویراتی توازن اور استحکام سے متعلق آپس میں بات چیت کر رہے ہیں۔ امریکہ آج اس غیرمعمولی ملاقات میں سلامتی سے متعلق روس کے خدشات سننے اور اپنے خدشات سے آگاہ کرنے کی تیاری کر کے شامل ہوا۔ ہم نے اس بارے میں متعدد تجاویز بھی پیش کیں کہ دونوں ممالک اپنی سلامتی کے مفاد میں اور باہمی تزویراتی توازن بہتر بنانے کے لیے کون سے دوطرفہ اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔ امریکہ نے ان باہمی امور پر مزید تفصیلی بات چیت کے لیے جلد دوبارہ ملاقات کی پیشکش کی۔

امریکہ نے اس بارے میں آج جو ابتدائی تجاویز پیش کیں ان میں میزائلوں کی تنصیب بھی شامل ہے۔ ہم نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکہ دونوں ممالک کے مابین اِس وقت کالعدم معاہدے کے تحت یورپ میں مخصوص میزائل نظاموں کے مستقبل پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔

ہم نے انہیں بتایا کہ ہم فوجی مشقوں کے حجم اور وسعت اور ان مشقوں سے متعلق شفافیت کو بہتر بنانے کے لیے باہمی طور پر دوطرفہ حدود طے کرنےکے طریقوں پر بات چیت کے لیے بھی تیار ہیں اور اس ہفتے نیٹو۔ روس کونسل اور او ایس سی ای کے اجلاس میں اس موضوع پر گفت وشنید کا خیرمقدم کریں گے۔

امریکہ اور روس کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جوہری جنگ کبھی نہیں جیتی جا سکتی اور یہ کبھی نہیں لڑی جانی چاہیے۔ ہم اس سے پہلے ہونے والے ایس ایس ڈی کے اجلاسوں میں اس مشترکہ اصول پر تبادلہ خیال کر چکے ہیں اور گزشتہ ہفتے پی5 ممالک نے بھی ایک بیان میں اس کی ازسرنو توثیق کی تھی۔ اسی لیے امریکہ طویل عرصہ سے روس کے ساتھ ضبطِ اسلحہ کے لیے ممکنہ طریقہ ہائے کار پر بات چیت کا خواہاں رہا ہے جن میں تزویراتی اور غیرتزویراتی جوہری ہتھیار بھی شامل ہیں۔ ہم نے آج ہونے والے اجلاسوں میں بھی اس موضوع پر مفصل بات چیت میں اپنی دلچسپی ظاہر کی۔

لیکن ہم سلامتی سے متعلق ایسے اقدامات سے متعلق تجاویز کی بھی سختی سے مخالفت کریں گے جن پر عملدرآمد امریکہ کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ہم کسی کو نیٹو کی "اوپن ڈور" پالیسی کے خلاف اقدامات کی اجازت نہیں دیں گے جو ہمیشہ نیٹو اتحاد کا مرکزی نکتہ رہی ہے۔ ہم اُن خودمختار ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعاون ترک نہیں کریں گے جو امریکہ کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔ ہم یوکرین کے بغیر یوکرین پر، یورپ کے بغیر یورپ پر اور نیٹو کے بغیر نیٹو پر بات چیت کے بارے میں کوئی فیصلے نہیں کریں گے جیسا کہ ہم اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں سے کہتے ہیں "آپ کے بغیر آپ کے بارے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا۔"

امریکہ روس کے ساتھ بامعنی اور دوطرفہ بات چیت کا عزم رکھتا ہے جیسا کہ ہم اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مشاورت اور رابطوں کا عزم رکھتے ہیں۔ ہم جتنا جلد ممکن ہو ایسے دوطرفہ امور پر بات چیت جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں جن کی ہم نے آج نشاندہی کی ہے اور ہم نے یہ بات واضح کر دی ہے۔ ہم آنے والے دنوں میں اور اس ہفتے کے اختتام پر اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ بات چیت کریں گے اور اسے مدنظر رکھتے ہوئے اس ہفتے کے اختتام پر امریکہ اور روس کی حکومتیں مستقبل کے لائحہ عمل پر گفت و شنید کریں گی۔

روس کے حکام سرکاری اور نجی طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ اس معاملے میں فوری پیش رفت چاہتے ہیں اور امریکہ اس کے لیے تیار ہے۔ ضبطِ اسلحہ جیسے پیچیدہ موضوعات پر بات چیت آئندہ دنوں یا ہفتوں میں مکمل نہیں ہو سکتی۔ میرے روسی ہم منصب نائب وزیر خارجہ ریبکوو یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ہمیں سفارت کاری اور بات چیت کو وقت اور گنجائش دینا ہے جو ایسے پیچیدہ موضوعات پر پیش رفت کے لیے ضروری ہے۔

ہم نے اس بات چیت کو ایک غیرمعمولی دور اس لیے کہا ہے کہ یہ دونوں اطراف سے ماہرین کے کے ورکنگ گروپوں کے ابتدائی اجلاسوں کے بغیر ہوا جن کے قیام پر فریقین نے گزشتہ سال ستمبر میں ہونے والے اجلاس میں اتفاق کیا تھا۔

تاہم یہ موجودہ تناظر کے اعتبار سے بھی ایک غیرمعمولی دور تھا کہ اس وقت روس نے یوکرین کی سرحد کے ساتھ ایک لاکھ سے زیادہ فوج جمع کر رکھی ہے۔

اسی دوران ماسکو کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کے بجائے دراصل یوکرین تصادم چاہتا ہے اور اشتعال انگیز طرزعمل سے کام لے رہا ہے۔

یہاں یہ بات دہرانا ضروری ہے کہ یہ روس ہی تھا جس نے 2014 میں یوکرین پر حملہ کیا۔ یہ روس ہی ہے جو مشرقی یوکرین میں جنگ کے شعلوں کو ہوا دے رہا ہے جس میں یوکرین کے قریباً 14 ہزار لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ اب یہ روس کے اقدامات ہی ہیں جو ناصرف یوکرین بلکہ پورے یورپ کے لیے ایک نیا بحران پیدا کر رہے ہیں۔

کوئی ملک بزور طاقت دوسرے کی سرحدیں تبدیل کرسکتا ہے، نہ دوسرے کی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہو سکتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کو اپنے اتحاد منتخب کرنے سے روک سکتا ہے۔ یہ عالمی نظام کے بنیادی اصول ہیں اور اس سے قبل گزشتہ برسوں میں روس ان پر کئی مرتبہ اتفاق کر چکا ہے۔

ہم اس بارے میں واضح سوچ رکھتے ہیں اور آج بھی واضح تھے کہ امریکہ سفارت کاری کے ذریعے حقیقی پیش رفت کا خیرمقدم کرے گا۔ ہم نے اس بات پر زور بھی دیا کہ ہم سمجھتے ہیں حقیقی پیش رفت اشتعال انگیزی اور تناؤ کے ماحول میں نہیں ہو سکتی بلکہ یہ تناؤ کو ختم کرنے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ اگر روس بات چیت جاری رکھے اور تناؤ ختم کرنے کے اقدامات اٹھائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے مابین پیش رفت ممکن ہے۔ لیکن اگر روس سفارتی راستہ ترک کر دیتا ہے تو اس سے یہ بالکل واضح ہو جائے گا کہ وہ سفارت کاری سے کام لینے میں سرے سے سنجیدہ ہی نہیں تھا۔

ہم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر روس یوکرین میں مزید مداخلت کرتا ہے تو اسے اس کی بھاری قیمت چکانا ہو گی اور نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا جو 2014 سے کہیں بڑھ کر ہوں گے۔ صدر بائیڈن نے صدر پوٹن کے ساتھ اپنی حالیہ گفتگو میں یہی کہا ہے اور میں نے نائب وزیر خارجہ ریبکوو پر بھی یہ واضح کر دیا ہے۔ روس کو کڑا فیصلہ کرنا ہو گا۔

امریکہ اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ قریبی روابط جاری رکھے گا۔ نئے سال کے آغاز سے صدر بائیڈن نے یوکرین کے صدر زیلینسکی سے براہ راست بات کی ہے۔ وزیر خارجہ بلنکن نے یوکرین کے وزیر خارجہ کولیبا اور یورپی یونین کی اعلیٰ سطحی نمائندہ بوریل سے بات چیت کی، بخارسٹ نائن کے ساتھ بات کی، واشنگٹن میں جرمن وزیر خارجہ بائربوک کے ساتھ ملاقات کی اور نیٹو کے وزرائے خارجہ کے ورچوئل اجلاس میں شرکت کی جو اس سلسلے میں ہمارے رابطوں کی چند مثالیں ہیں۔

اسی طرح میں ایک ہفتے پہلے جنیوا میں آئی جہاں میں نے یونان اور جارجیا کے وزرائے خارجہ، سپین کے وزیر خارجہ، نیٹو کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل، ای ای اے ایس کے سیکرٹری جنرل سینینو اور او ایس سی ای کے سیکرٹری جنرل شمِڈ سے بات چیت کی اور فرانس، جرمنی، برطانیہ اور اٹلی کے ساتھ مشترکہ تبادلہ خیال میں شریک ہوئی۔

اس طرح ہم نے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ ہر سطح پر رابطہ قائم کیا ہے اور ہم آنے والے دنوں اور ہفتوں میں یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔

کل علی الصبح میں برسلز جاؤں گی جہاں مجھے نیٹو کے سیکرٹری جنرل سٹولٹنبرگ سے ملاقات کرنا ہے جس کے ساتھ میں نارتھ اٹلانٹک کونسل کے نمائندوں سے بھی ملوں گی۔ میں ای ای اے ایس کے سیکرٹری جنرل سینینو سے دوبارہ ملاقات بھی کروں گی اور یورپی یونین کی سیاسی و سلامتی کے امور سے متعلق کمیٹی کو اس معاملے میں پیش رفت سے آگاہ کروں گی۔ یہ تمام ملاقاتیں بدھ کو نیٹو۔ روس کونسل کے اجلاس سے پہلے ہوں گی جہاں مجھے امریکہ کے وفد کی قیادت کرنا ہے۔

مجھے پوری توقع ہے کہ اس ہفتے نیٹو۔ روس کونسل اور او ایس سی ای کے اجلاس سے روس کو امریکہ اور ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کی جانب سے ایک مشترکہ پیغام جائے گا اور وہ یہ ہو گا کہ تناؤ ختم کرنے کا انحصار روس پر ہے تاکہ ہمارے پاس اس مسئلے کے سفارتی حل تلاش کرنے کا موقع ہو۔

ہمارے ساتھ شمولیت پر آپ کا ایک مرتبہ پھر شکریہ۔ چونکہ میں نے چہرے پر ماسک پہن رکھا ہے اس لیے آپ کو بعض اوقات میرے الفاظ سمجھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہو گا جس پر میں معذرت چاہتی ہوں۔ اب میں آپ کے سوالات کی منتظر ہوں۔ شکریہ۔

نیڈ پرائس: شکریہ۔ آپریٹر، براہ مہربانی کیا آپ سوالات کے لیے ہدایات دہرائیں گے؟

آپریٹر: یقیناً۔ خواتین و حضرات، اگر آپ کوئی سوال پوچھنا چاہیں تو براہ مہربانی اپنے فون پر 1 اور 0 کا بٹن دبائیں۔ آپ ایک مرتبہ پھر 1 اور 0 کا بٹن دبا کر اپنے سوال سے دستبردار بھی ہو سکتے ہیں۔

نیڈ پرائس: شکریہ۔ ہم اینڈریا مچل کے سوال سے آغاز کریں گے۔ جی بات کیجیے۔

آپریٹر: شکریہ۔ ایک لحظہ ٹھہریے۔

سوال: آپ کا بہت شکریہ۔ کیا آپ ان پابندیوں کے بارے میں وضاحت سے بتا سکتی ہیں جن کا آپ نے تذکرہ کیا ہے؟ ہمارے ساتھیوں نے ہفتے کے اختتام پر دی نیویارک ٹائمز میں اس حوالے سے نہایت وضاحت سے بتایا ہے۔ کیا ہم "سوئفٹ" نظام کی بات کر رہے یا مخصوص شعبوں پر درآمدی و برآمدی پابندیوں کی بات ہو رہی ہے؟ کیا آپ قدرے مزید وضاحت سے بتائیں گی کہ اگر روس سفارت کاری کی راہ اختیار نہیں کرتا تو اسے کون سے نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟ آپ کا بہت شکریہ۔

نائب وزیر خارجہ شرمن: ایںڈریا، ہم نے یہ کہا ہے کہ اگر روس یوکرین میں مزید مداخلت کرتا ہے تو اسے اس کی جو قیمت چکانا پڑے گی اور جن نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا وہ 2014 کی صورتحال کے مقابلے میں کہیں کڑے اور بڑے ہوں گے۔ اگر ضرورت پڑی تو ہم اپنے شرکت داروں اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر روس کے خلاف ایسے سخت اقدامات کے لیے تیار ہیں اور ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ آپ نے نیٹو، جی7 اور یورپی کونسل کے بیانات دیکھے ہوں گے۔ ہم پوری طرح ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ روس کو یوکرین میں مداخلت کی جو قیمت چکانا پڑے گی اس میں مالیاتی پابندیاں بھی شامل ہیں اور یہ بتایا جا چکا ہے کہ اس کے اہم مالیاتی اداروں کو بھی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کی اہم صنعتی پیداوار کی برآمد پر پابندیاں عائد کی جائیں گی، اتحادی ممالک کی سرزمین پر نیٹو کی فوجی قوت میں اضافہ کیا جائے گا اور یوکرین کے لیے دفاعی امداد بھی بڑھا دی جائے گی۔

اینڈریا، میں اس کی مزید مخصوص تفصیلات میں نہیں جاؤں گی اگرچہ مجھے اندازہ ہے کہ آپ کو اس میں کیوں دلچسپی ہے۔ یہ معلومات ظاہر نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ یہ پابندیاں موثر ہوں، اگر ہمیں انہیں نافذ کرنا پڑے تو روس کو ان کے بارے میں اندازہ نہ ہو اور ہم جانتے ہیں کہ ان پابندیوں کے اثرات بھی ہوں گے۔

سوال: کیا میں اسی حوالے سے یہ سوال پوچھ سکتی ہوں کہ یوکرین کے لیے مدد میں اضافے سے کیا مراد ہے؟ کیا آپ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ آپ یوکرین کی حکومت اور یوکرین میں ملیشیا کے گروہوں کو مدد فراہم کریں گے؟

نائب وزیر خارجہ شرمن: میں یوکرین کو دفاعی مدد دینے کی بات کر رہی ہوں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہم نے اسے پہلے ہی کچھ دفاعی امداد مہیا کی ہے۔ ہم اب بھی اس کی مدد کر رہے ہیں اور اس میں اضافے کریں گے۔ یوکرین کو صرف امریکہ ہی کی مدد حاصل نہیں ہے بلکہ یورپ میں دیگر حکومتیں بھی اسے سلامتی کے شعبے میں معاونت فراہم کر رہی ہیں۔

نیڈ پرائس: اب ہم جینیفر ہینسلر سے بات کریں گے۔

سوال: اس بریفنگ کا بہت شکریہ: اسی دوران روس کے حکام بھی بات کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے امریکہ کو بتایا ہے کہ تناؤ اور اشتعال میں اضافے کا کوئی خدشہ نہیں اور وہ یوکرین پر حملے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ کیا آپ یہ وضاحت کر سکتی ہیں کہ انہوں نے آپ کو اس حوالے سے کیا بتایا اور آپ کس حد تک اس پر یقین رکھتے ہیں؟

اگر فریقین کی بات چیت کو دیکھا جائے تو کیا انہوں نے ایسے مسائل پر بھی بات کی جن پر آپ بات کرنا نہیں چاہتے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ نیک نیتی سے اس گفتگو میں شامل ہوئے تھے۔

نائب وزیر خارجہ شرمن: آج ہم نے اپنی بات چیت میں ایک دوسرے کو بہتر طور سے سمجھا اور ایک دوسرے کی ترجیحات اور خدشات سے آگاہی حاصل کی۔ آپ اسے مذاکرات نہیں کہہ سکتے۔ ابھی ہم اس جگہ نہیں پہنچے جہاں ہم کچھ طے کر کے اسے لکھنا شروع کر دیں۔ درحقیقت یہ ملاقات ایسی نہیں تھی کہ کوئی معاہدہ سامنے رکھا گیا ہو اور ہم اس پر حرف بہ حرف اور سطر بہ سطر بات چیت شروع کر دیں۔ ہم ابھی اس سطح پر نہیں پہنچے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ نہایت سنجیدہ، باقاعدہ، مخلصانہ، واضح اور صاف انداز میں تبادلہ خیال کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ایک دوسرے کے خدشات اور ترجیحات کا بہتر طور سے اندازہ لگا سکیں۔

جہاں تک سرحد پر ایک لاکھ فوج کی موجودگی کی بات ہے تو میں نہیں سمجھتی کہ آپ کو یہ سن کر حیرانی ہو گی کہ روس نے ہمیں بتایا ہے جیسا کہ وہ سرکاری طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ حملے کا ارادہ نہیں رکھتا اور سرحد پر اس کی فوج محض معمول کی نقل و حرکت اور مشقوں کے لیے موجود ہے۔ تاہم میں یہ کہوں گی کہ اس بارے میں کسی کو باقاعدہ مطلع نہیں کیا گیا۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ جہاں ممکن ہو ہم اپنی فوجی مشقوں سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتے ہیں۔ وہ تناؤ میں کمی لا کر اور اپنے فوجیوں کو بیرکوں میں واپس بھیج کر یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ان کا تصادم کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

ںیڈ پرائس: اب ہم مِسی رائن سے بات کریں گے۔ جی۔

سوال: (ناقابل سماعت) حکام اور حالیہ دنوں میں بریفنگ دینے والوں نے اس پر بات کی ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ اس حوالے سے مزید وضاحت سے بتا سکتی ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ آیا اس ہفتے ہونے والی کسی بات چیت کے دوران یورپ میں امریکہ کے فوجیوں کی تعداد کے حوالے سے بھی کوئی بات ہو گی۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ آج امریکہ۔ روس دوطرفہ بات چیت کا حصہ نہیں ہے۔ کیا آپ یہ کہیں گی روس۔ نیٹو کونسل کے اجلاس یا او ایس سی ای کے اجلاس میں یورپ میں امریکہ کے فوجی دستوں کی تعداد میں کسی تبدیلی یا مستقبل میں اس حوالے سے کسی تبدیلی یا سی ایف ای جیسی کسی چیز کے بارے میں کوئی بات چیت نہیں ہو گی؟ مجھے امید ہے کہ آپ اس حوالے سے کوئی وضاحت کریں گی تاکہ غیریقینی کیفیت سے بچا جائے۔ شکریہ۔

نائب وزیر خارجہ شرمن: ہم نے یورپ میں امریکہ کے فوجیوں کی تعداد کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ میں ںہیں سمجھتی کہ ان ملاقاتوں اور بات چیت میں اس بارے میں کوئی گفت و شنید ہونا ہے۔ اس کی پیش بندی نہیں کی گئی۔ یہ ہماری بات چیت کا موضوع نہیں ہے۔ سی ایف ای ایک ایسا معاہدہ ہے جو طویل عرصہ سے چلا آ رہا ہے اور روس کے معاملے سے ہٹ کر بھی اہمیت رکھتا ہے تاہم آج فوجیوں کی تعداد اور امریکی فوجیوں کی تعداد پر بات چیت ہمارے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔

نیڈ پرائس: اب ہم میٹ لی کا سوال لیں گے۔ جی بات کیجیے۔

سوال: میں اس بارے میں قدرے متجسس ہوں کہ آیا آج ہونے والی بات چیت میں کوئی ایسی چیز بھی ہے جو آپ کو مستقبل کی گفت و شنید کے لیے کوئی اچھی امید دے سکے۔ کیا ورکنگ گروپوں کی بات چیت جاری رکھنے سے متعلق یا ایسی ہی کسی چیز کے بارے میں یا اس معاملے میں کوئی دیگر معاہدے موجود ہیں؟

دوسری بات یہ کہ تناؤ کم کرنے پر بہت سے باتیں ہوتی رہی ہیں۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں کے خیال میں تناؤ میں کمی لانے سے کیا مراد ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ روس سرحد سے اپنی تمام فوج ہٹا لے یا اسے اپنی فوج کا کچھ حصہ سرحد سے پیچھے لے جانا ہو گا؟ میرے کہنے کی وجہ یہ ہے کہ میں جارجیا اور 2014 کے واقعات سمیت اس تمام صورتحال کے تناظر سے آگاہ ہوں اور روس کے یہ فوجی دستے روسی سرزمین پر ہی موجود ہیں۔ درحقیقت روس کے فوجی وہاں سے کہیں اور نہیں گئے۔ لہٰذا میرا سوال یہ ہے کہ جب آپ تناؤ میں کمی لانے کی بات کرتے ہیں تو دراصل اس سے آپ کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ شکریہ۔

نائب وزیر خارجہ شرمن: میٹ میں آپ کے سوال کے آخری حصے کا جواب پہلے دوں گی۔ یہ بالکل وہی بات ہے جو میں نے پہلے کہی کہ فوجیوں کو بیرکوں میں واپس بھیجیں یا ہمیں بتائیں کہ کون سی مشقیں ہو رہی ہیں اور ان کا مقصد کیا ہے۔ ابھی تک انہوں نے اس فوجی اجتماع کی وضاحت نہیں کی۔ عام طور پر ایک لاکھ فوج صرف مشقوں کے لیے سرحد پر نہیں بھیجی جاتی۔ یہ بالکل غیرمعمولی بات ہے اور یہ سب کچھ یوکرین کی سرحد پر ہو رہا ہے۔ اس لیے میں واضح کر دوں کہ ہمارے یہ کہنے کا مقصد انہیں ایک حتمی پیغام بھیجنا تھا۔ جیسا کہ ہمارے ساتھ وفد میں موجود جنرل مِنگس نے کہا، وہ جو کچھ کر رہے ہیں اسے ہم اسی طرح دیکھ سکتے ہیں جس طرح وہ ہماری سرگرمیوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ لہٰذا ہمارا ان کی فوج کو سرحد پر دیکھنا کوئی پراسرار بات نہیں ہے۔ وہ جانتے تھے کہ ہم یہ سب کچھ دیکھیں گے۔ وہ جانتے تھے کہ اس سے ہمیں تشویش ہو گی اور یقیناً اس تشویش کی نہایت معقول وجوہات ہیں۔

جہاں تک مستقبل میں بات چیت کے حوالے سے امید کی بات ہے تو اگر امید نہ ہو تو سفارت کاروں کا کام بہت مشکل ہو جائے۔ لہٰذا یقیناً ہم پُرامید ہیں لیکن اس سے زیادہ ہمیں اس بات چیت کے نتائج کی فکر ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہم نے سنجیدہ، صاف، باقاعدہ اور مخلصانہ طور سے بات چیت کی ہے۔ میٹ، چونکہ آپ سالہا سال سے ان چیزوں کو دیکھتے چلے آئے ہیں اس لیے آپ آگاہ ہیں کہ روس کے نائب وزیر خارجہ ریبکوو اور میں ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہم نے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے معاملے پر اکٹھے کام کیا ہے۔ ہم نے ایران سے متعلق مشترکہ جامع منصوبہء عمل پر کام کیا ہے۔ یقیناً اب جب میں نائب وزیر خارجہ ہوں تو ہم نے ایس ایس ڈی پر اکٹھے کام کیا ہے۔ ہم ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس لیے ہم ہرممکن حد تک ایک دوسرے سے صاف اور سیدھی بات کر سکتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ہم یہاں اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے آئے ہیں اور ہم مخلصانہ طور سے ان مفادات کی تکمیل چاہتے ہیں۔

میں سمجھتی ہوں کہ میں نے قبل ازیں جو بات کی ہے وہ اس بارے میں ہے کہ ہم اس ہفتے کون سی بات چیت کریں گے۔ ہم ہر چیز پر غوروفکر کریں گے۔ مجھے توقع ہے کہ سبھی کو ساتھ لے کر اور نیٹو اور او ایس سی ای میں اپنے شراکت داروں اور اتحادیوں سے بات کرنے کے بعد ہم روس کی حکومت سے مزید بات کریں گے اور مستقبل کے لیے بہترین راہ متعین کریں گے۔

نیڈ پرائس: ڈیوڈ سینگر، بات کیجیے۔

آپریٹر: ڈیوڈ، آپ کی لائن کھلی ہے۔ براہ مہربانی بات کیجیے۔

نیڈ پرائس: ڈیوڈ، کیا آپ بات کر رہے ہیں، شاید آپ کے فون کی آواز بند ہے۔ ٹھیک ہے، ڈیوڈ کو ہماری بات سنائی نہیں دے رہی۔ آئیے اب بات کرتے ہیں ۔۔۔

سوال: میرے خیال میں یہاں جو بات ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ

نیڈ پرائس: جی بات کیجیے

سوال: نیڈ، کیا آپ مجھے سن سکتے ہیں؟

نیڈ پرائس: جی ہاں۔

سوال: ٹھیک ہے۔ میں معذرت چاہتا ہوں۔ نائب وزیر خارجہ شرمن، بریفنگ کے لیے شکریہ۔

میرا سوال یہ ہے کہ آپ آئی این ایف کی تجدید پر بات چیت کے لیے تیار تھے۔ یقیناً اوبامہ انتظامیہ کے دوران اور پھر ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں بھی یہی صورتحال رہی جب امریکہ کی حکومت میں یہ خدشہ پایا جاتا تھا کہ روس اس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ کیا آپ مجھے اس بارے میں کچھ مزید وضاحت سے بتا سکتی ہیں کہ آپ ان خلاف ورزیوں پر بات کیے بغیر اسے کیسے بحال کریں گے؟ کیا روس نے آپ کی اس پیشکش پر کسی انداز میں کوئی جواب دیا ہے؟

نائب وزیر خارجہ شرمن: ڈیوڈ میں آپ کو یہ اس طرح سمجھاتی ہوں کہ روس نے ہمارے ان خدشات کا ازالہ کیا ہے جن کی بنیاد پر آئی این ایف معاہدے کا خاتمہ ہوا تھا۔ یہ کوئی مذاکرات نہیں تھے اس لیے ہم نے آج اس معاہدے کی بحالی کی بات بھی کی۔ اس ضمن میں ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے لیکن درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے متعلق خدشات بدستور موجود ہیں۔ یہی وہ میزائل ہیں جن کے باعث آئی این ایف معاہدہ کیا گیا تھا۔ یہ خدشات بدستور موجود ہیں اور اگر ہمارے پاس اس معاہدے کے خاتمے کا سبب بننے والے ہمارے خدشات کے ازالے سمیت اس مسئلے کو حل کرنے کا کوئی طریقہ موجود ہے تو اس پر غور ہونا چاہیے اور یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا ہم ایسے دوطرفہ اقدامات اٹھا سکتے ہیں جن سے ہماری سلامتی بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہو۔

نیڈ پرائس: اب ہم لارا کیلی سے بات کریں گے۔

سوال: (ناقابل سماعت) ۔۔۔ آپ کی ملاقاتوں میں کوئی ایسا اشارہ دیا کہ ماسکو یوکرین کی سرحد پر اپنے فوجی اجتماع کے نتیجے میں مذاکرات کے ان غیرمعمولی ادوار کے بعد تناؤ میں کمی لانے کے لیے تیار ہے؟

نائب وزیر خارجہ شرمن: میں نہیں سمجھتی کہ اس کا جواب ہمارے پاس موجود ہے۔ ہم نے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ تناؤ میں کمی لائے بغیر تعمیری، مفید اور کامیاب سفارت کاری بہت مشکل ہے کیونکہ اشتعال انگیزی میں اضافے سے تناؤ بڑھتا ہے اور اس سے حقیقی بات چیت کے لیے سازگار ماحول نہیں بن پاتا۔ آج ہم یہاں تک نہیں پہنچے لیکن بالاآخر ہمیں اسی طرف آنا ہے۔ لہٰذا ہم دیکھیں گے کہ آیا روسی یہ بات سمجھتے ہیں کہ تناؤ اور اشتعال میں کمی لانا ہی ان کے لیے سفارت کاری سے کام لینے کا بہترین راستہ ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ وہ اس معاملے میں کس قدر سنجیدہ ہیں۔

نیڈ پرائس: اب ہم جرمن ٹیلی ویژن زیڈ ڈی ایف کے ایلمر تھیویسن سے بات کریں گے۔

سوال: (ناقابل سماعت) ۔۔۔ معاہدوں کے مسودے، وزیر شرمن۔ کیا ریبکوو نے ان معاہدوں کے مسودے بھی سامنے رکھے جو روس نے چند ہفتے پہلے پیش کیے تھے اور جن کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ یہ ہر چیز کی بنیاد ہیں۔ کیا اس بات چیت کے دوران ان پر بھی گفت و شنید ہو گی۔

میرا دوسرا سوال برآمدات پر پابندی سے متعلق ہے جس کے بارے میں آپ نے بھی بات کی ہے کہ روس کے خلاف ممکنہ پابندیوں میں برآمدات پر پابندی بھی شامل ہو سکتی ہے۔ کیا آپ یورپی ممالک سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھی اس پابندی کے نفاذ میں آپ کا ساتھ دیں گے، مثال کے طور پر کیا وہ روس کو ٹیکنالوجی اور تکنیکی نوعیت کی اشیا کی برآمدات روکیں گے؟

نائب وزیر خارجہ شرمن: یہ بات درست ہے کہ روس جن معاہدوں کے مسودے سامنے لایا وہ آج کی بات چیت میں روس کے نکتہ نظر کی بنیاد تھے۔ ہم نے بھی اپنے خدشات ان کے سامنے پیش کیے۔ ہم وہاں بیٹھ کر ان کے معاہدوں کے مسودے نہیں دیکھتے رہے تاہم ایسا نہیں کہ ان پر کوئی بات نہ ہوئی ہو۔ لہٰذا مجھے یہ کہنا ہے کہ اگرچہ ہم ان مسودوں پر کوئی کام نہیں کر رہے تاہم بات چیت کے دوران روس کی جانب سے انہیں سامنے ضرور لایا گیا تھا۔

جہاں تک برآمدات پر پابندی کا سوال ہے تو ہم اپنے شراکت داروں اور اتحادیوں کے ساتھ اس پر جامع بات چیت کر رہے ہیں اور مستقبل کے لیے بہترین لائحہ عمل طے کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس ضمن میں ہم سمجھ بوجھ، اتفاق رائے اور باہمی مفاد کو مدنظر رکھ کر کام کر رہے ہیں۔

نیڈ پرائس: اب ہم نائیکے چِنگ کا سوال لیں گے۔

سوال: آپ دونوں ممالک کے مابین اعتماد کی سطح کے بارے میں کیا کہیں گے؟ اس سے ہٹ کر اگر اجازت ہو تو مجھے یہ پوچھنا ہے کہ گزشتہ ہفتے چین کے صدر ژی جِن پنگ نے یوکرین کے ساتھ اپنے ملک کے دوطرفہ سفارتی تعلقات کی 30ویں سالگرہ پر اس کے صدر زیلینسکی سے فون پر بات کی تھی۔ اس موقع پر دونوں رہنماؤں نے چین اور یوکرین کے مابین تزویراتی شراکت آگے بڑھانے پر اتفاق کیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ امریکہ یوکرین پر چین کے اثرورسوخ کو کیسے دیکھتا ہے۔ یا امریکہ یہ توقع رکھتا ہے کہ چین روس کو ایسے وقت میں یوکرین پر مزید فوجی جارحیت سے باز رکھنے میں کوئی کردار ادا کرے گا جب روس اور چین میں فوجی تعاون مزید فروغ پا رہا ہے؟ آپ کا بہت شکریہ۔

نائب وزیر خارجہ شرمن: ان سوالات پر آپ کا شکریہ۔ سب سے پہلی بات یہ کہ سفارت کار اور مذاکرات کار کی حیثیت سے عام طور پر میں محض اعتماد کی بنیاد پر اپنا کام نہیں کرتی۔ میں سمجھتی ہوں کہ دوسرے ممالک کے بھی مفادات ہوتے ہیں اور وہ مفادات ہم سے مختلف بھی ہو سکتے ہیں اور میں انہیں سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ اس معاملے میں اہم بات یہ ہوتی ہے کہ: نتائج کیا ہیں؟ یہ یہ دوطرفہ ہیں؟ کیا اس سے امریکہ کی سلامتی میں بہتری آئے گی؟ وزیر خارجہ اور صدر نے امریکی وفد کی قائد کی حیثیت سے مجھے یہی ذمہ داری سونپی ہے۔

اس لیے میرے لیے یہ اس طرح ہے کہ مجھے کام کرنا ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ آیا نتائج ۔۔۔ آیا ہم ایک دوسرے کے مفادات کو سمجھتے ہیں خواہ وہ ایک دوسرے سے مختلف ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ وہ ہماری سلامتی کے مفادات سے میل نہیں کھاتے، مجھے یہ دیکھنا ہے کہ آیا ہم مسئلے کا کوئی ایسا حل تلاش کر سکتے ہیں جس میں دوطرفہ مفادات کا تحفظ ہوتا ہو اور ہماری سلامتی کی ضمانت ملتی ہو۔

جہاں تک آپ کے دوسرے سوال کی بات ہے تو اس موقع پر یہ ہماری کسی بات چیت یا غوروفکر کا موضوع نہیں ہے اس لیے میں نہیں سمجھتی کہ میرے پاس اس سوال کا کوئی مفید جواب موجود ہے۔

نیڈ پرائس: اب ہم ریڈیو فری یورپ کے مائیک ایکل کا سوال لیں گے۔

آپریٹر: مائیک، آپ کی فون لائن کھلی ہے۔ براہ مہربانی سوال پوچھیے۔

سوال: آپ کا بہت شکریہ۔ میرا سوال خاص طور پر نیٹو کے بارے میں ہے۔ میں اس خاص بریفنگ اور روس کے نائب وزیر خارجہ ریبکوو کی بریفنگ میں کہی گئی باتوں پر غور کر رہا ہوں۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ آج کسی حد تک نیٹو کی وسعت کا موضوع بھی زیربحث آیا اور ریبکوو کے مطابق امریکی وفد نے یکسر واضح کر دیا کہ نیٹو کو وسعت دینے کے معاملے پر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ مجھے یہ پوچھنا ہے کہ آیا آپ نیٹو کے معاملے کی نوعیت واضح کر سکتی ہیں اور بتا سکتی ہیں کہ آج مسٹر ریبکوو کے ساتھ اس پر کیسے بات چیت ہوئی۔

نائب وزیر خارجہ شرمن: جی، یقیناً اگر آپ مسٹر ریبکوو کی بات سنتے رہے ہیں تو آپ مجھ سے زیادہ بہتر طور پر جانتے ہیں کیونکہ میں تو آپ سے محو گفتگو رہی ہوں۔ تاہم میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ روس سمجھتا ہے کہ نیٹو کو مزید وسعت نہیں دی جانی چاہیے۔ انہوں نے امریکہ اور نیٹو کے ساتھ جن دو معاہدوں کے مسودے پیش کیے ان میں یہ بات نہایت واضح طور پر کہی گئی تھی۔ اس حوالے سے ہمارا جواب بالکل واضح تھا کہ ہم دوسرے ممالک کے فیصلے نہیں کرتے۔ ہم اس سے اتفاق نہیں کرتے کہ جب کسی کے نیٹو اتحاد کا حصہ بننے کی بات ہو تو کسی ملک کو دوسرے پر ویٹو کا اختیار ہو۔ اس مقصد کے لیے نیٹو کے اپنے طریقہ ہائے کار ہیں اور ہم ان کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ممالک کو اپنی خارجہ پالیسی کی سمت خود متعین کرنا ہے اور یہ خود طے کرنا ہے کہ وہ اپنی خودمختاری اور زمینی سالمیت کو مدنظر رکھ کر کون سے فیصلے کرتے ہیں۔ اس کا فیصلہ دوسروں کو نہیں کرنا اور یقیناً یہ سب کچھ بزور طاقت نہیں ہونا چاہیے۔

نیڈ پرائس: ہمارے پاس چند آخری سوالات کے لیے وقت بچا ہے۔ اب ہم ویوین سلامہ کا سوال لیں گے۔

سوال: (ناقابل سماعت) — میری بات میٹ لی کے سوال سے ہی متعلق ہے۔ مجھے یہ پوچھنا ہے کہ آیا روس کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے پابندیوں یا ایسے کسی ملتے جلتے اقدام سے بچنے کے لیے فوجیوں کی تعداد میں کمی جیسا کوئی خاص قدم اٹھانا ہو گا؟ دوسری بات یہ کہ کیا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے کوئی کارروائی نہ ہونے کی صورت میں جوں کے توں حالات سے نمٹنے کے لیے روس کے لیے کسی اقدام کا کوئی حتمی وقت بھی طے کیا گیا ہے؟ شکریہ

نائب وزیر خارجہ شرمن: میرا خیال ہے کہ غالباً آپ نے وزیر خارجہ بلنکن کی گفتگو سنی ہو گی جس میں انہوں نے کہا ہے کہ روس کے پاس دو ہی راستے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ سفارت کاری سے کام لے جس سے پُرامید طور پر نہ صرف روس کی سلامتی کی ضمانت ملے گی بلکہ ہماری، ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کی سلامتی بھی یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ دوسرا راستہ مزاحمت کا ہے جس پر روس کو اپنے اقدامات کی ٹھوس، نمایاں اور بھرپور قیمت چکانا ہو گی۔ یہ بالکل واضح انتخاب ہے اور میرے خیال میں اس کا فیصلہ صدر پوٹن ہی کر سکتے ہیں۔ یقیناً ہم روس پر زور دیں گے کہ وہ تناؤ میں کمی لائے اور ایسا ماحول پیدا کرے جو سفارتی راہ اپنانے کے لیے سازگار ہو۔ لیکن ہم دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے۔

نیڈ پرائس: اب ہم دی اکانومسٹ کے انتون لاگارڈیا سے بات کریں گے۔

سوال: ہیلو، کیا آپ مجھے سن سکتے ہیں۔

نیڈ پرائس: جی بات کیجیے۔

سوال: ہیلو؟

نائب وزیر خارجہ شرمن: جی

سوال: کیا آپ مجھے سن سکتی ہیں؟

نیڈ پرائس: جی، براہ مہربانی بات کیجیے۔

سوال: اوہ ، شکریہ۔ آپ نے متعدد مرتبہ 'دوطرفہ' کا لفظ استعمال کیا۔ مجھے یہ پوچھنا ہے کہ دوطرفہ سے آپ کی کیا مراد ہے۔ کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ فوجی مشقوں اور میزائلوں کے تناظر میں اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟ کیا آپ کو اندازہ ہوا ہے کہ روس اس نکتے پر آنا چاہتا ہے؟ کیا وہ آپ کی جانب سے پیش کردہ طویل مدتی رسمی بات چیت پر آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہیں؟ شکریہ۔

نائب وزیر خارجہ شرمن: پہلے میں آپ کے سوال کے آخری حصے کا جواب دوں گی کہ ہم نے کسی چیز کے لیے کوئی حتمی اوقات مقرر نہیں کیے۔ یقیناً روس کے حکام نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر تیزی سے پیش رفت چاہتے ہیں۔ ہم نے اس حد تک بات کی ہے کہ ہم کون سے اقدامات کر سکتے ہیں اور کون سا کام ہو سکتا ہے اور ہمیں جتنا جلد ممکن ہو اس معاملے پر پیش رفت کر کے خوشی ہو گی۔ میں نے اپنے افتتاحی کلمات میں جو بنیادی بات کی تھی وہ یہ ہے کہ ضبطِ اسلحہ کے ایسے معاہدے ایک دن یا ایک ہفتے میں نہیں ہوتے جیسا کہ صدر پوٹن نے خود کہا ہے۔ عام طور پر یہ پیچیدہ معاہدے ہوتے ہیں اور ان کی نوعیت نہایت تکنیکی ہونے کی بنا پر ان کی تکمیل میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ لیکن ہم ان حالات میں جتنا جلد ممکن ہو سکے آگے بڑھنے کو تیار ہیں۔

جہاں تک دوطرفہ معاملہ ہے تو ضبطِ اسلحہ کے معاہدے اسی وقت کام کرتے ہیں اور اسی وقت پائیدار ثابت ہوتے ہیں جب وہ دوطرفہ ہوں اور جب دونوں فریقین ایسے اقدامات اٹھائیں جس سے باہمی سلامتی یقینی بنانے کی ضمانت ملتی ہو۔ اسی لیے ہم یہاں جو کچھ بھی کر سکیں اور ابھی یہ واضح نہیں کہ ہم کیا کچھ کر پاتے ہیں، ہم کسی تجویز کے طور پر جو چیز بھی ایک دوسرے کے سامنے رکھیں گے اس کے بارے میں ہمیں توقع ہے کہ روس کی جانب سے اس پر ایسا طرزعمل اپنایا جائے گا جس سے دوطرفہ فائدہ ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ہم ویسا نہ کریں جیسا کہ کہا جا رہا ہے اور ممکن ہے کہ ہم اس سے ہٹ کر کوئی قدم اٹھائیں جو باہمی اور دوطرفہ ہو اور یہ سبھی فریقین کے لیے ضبطِ اسلحہ کے حوالے سے بے حد ضروری ہے۔

نیڈ پرائس: مشیل کیلیمین۔

سوال: (ناقابل سماعت) ۔۔۔ آج ہونے والی بات چیت میں قازقستان کا تذکرہ نہیں ہوا۔ انتون لائیون نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ امریکہ اور روس کو یوکرین کے حوالے سے غیرجانبدار رہنا چاہیے جیسا کہ سرد جنگ میں آسٹریا کا معاملہ تھا۔ مجھے یہ جاننا ہے کہ آیا آپ کے خیال میں کیا یہ اس جیسی منفرد تجاویز پر غور کرنے کا درست وقت ہے؟ شکریہ۔

نائب وزیر خارجہ شرمن: آپ کے پہلے سوال کا فوری جواب یہ ہے کہ آج ہونے والی بات چیت میں قازقستان کا معاملہ زیربحث نہیں آیا۔ جہاں تک غیرجانبداری کی بات ہے تو ہمارا ایک نہایت اہم اصول ہے۔ یوکرین کے بغیر یوکرین پر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ یوکرین کو اپنی خارجہ پالیسی کی سمت خود طے کرنا ہے۔ اس نے اپنا مستقبل خود طے کرنا ہے۔ نیٹو نے ہی نیٹو کی رکنیت کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ اس کے طریقہ کار کے تحت کوئی کیسے اس کا رکن بن سکتا ہے۔ کسی ملک کو دوسرے ممالک کے اپنے مستقبل کی بابت فیصلوں کو ویٹو کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔

نیڈ پرائس: اب ہم جلدی سے نک شفرین سے آخری سوال لیں گے۔ جی بات کیجیے۔

سوال: وینڈی، آپ کا بہت شکریہ، کیا آپ مجھے سن سکتی ہیں؟ ڈیوڈ نے آئی این ایف کے بارے میں بالخصوص بات کی۔ مجھے یہ پوچھنا ہے کہ کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ میزائلوں کی تنصیب کے حوالے سے آپ نے کتنی بات کی اور آیا ریبکوو اس معاملے میں امریکہ کی ترجیحات پر آپ کے ساتھ بات کرنے کو تیار تھے۔ کیا آج ہونے والی بات چیت کے بعد آپ سمجھتی ہیں کہ گزشتہ مہینے روس کی جانب سے سامنے لائی جانے والی تجاویز کا مسترد ہونا طے تھا اور اسے جنگ کے بہانے کے طور پر استعمال کیا جانا تھا یا درحقیقت یہ سنجیدہ بات چیت کا نکتہ آغاز تھیں؟

نائب وزیر خارجہ شرمن: روس کے حکام آپ کو بتائیں گے کہ ان تجاویز کی حیثیت سنجیدہ بات چیت کی شروعات کی سی تھی، لیکن ہم یہ دیکھیں گے کہ آیا واقعی ایسا ہی ہے یا ان کا کوئی اور مقصد تھا۔ میزائلوں کی تنصیب کے معاملے میں ہم نے ان کے سامنے چند تجاویز پیش کی ہیں۔ میں ان تجاویز کے بارے میں خاص طور پر کچھ نہیں کہوں گی۔ یقیناً ہم آئندہ دنوں میں ان میں سے بعض تجاویز پر اپنے شراکت داروں اور اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کریں گے۔ میں یہ کہوں گی کہ جو چیزیں روس کی ترجیحات نہیں اور جو شاید ان کی پہلی یا دوسری ترجیح بھی نہیں ہے، ان پر بھی آج ہماری مفید بات چیت اور اچھا تبادلہ خیال ہوا اور اس سے ہمیں مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے میں مدد ملے گی۔

نیڈ پرائس: نائب وزیر خارجہ شرمن، آپ کا بہت شکریہ۔ ہمارے ساتھ بات کرنے پر آپ سبھی کا شکریہ۔ یاد دہانی کے لیے بتاتے چلیں کہ یہ نائب وزیر خارجہ وینڈی آر شرمن کے ساتھ آن دی ریکارڈ کال تھی اور اس کی تفصیلات نشر و شائع کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔ امید ہے آپ سبھی کا دن اچھا رہے گا۔


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/briefing-with-deputy-secretary-wendy-r-sherman-on-the-u-s-russia-strategic-stability-dialogue/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔


This email was sent to stevenmagallanes520.nims@blogger.com using GovDelivery Communications Cloud on behalf of: Department of State Office of International Media Engagement · 2201 C Street, NW · Washington, DC · 20520 GovDelivery logo

No comments:

Page List

Blog Archive

Search This Blog

One Truth About Trump Most People Have Never Heard

qqqq ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏  ͏...