Thursday, December 9, 2021

صدر بائیڈن کا جمہوریت کے لیے ہونے والے سربراہی اجلاس سے خطاب

Department of State United States of America

یہ ترجمہ امریکی دفترخارجہ کی جانب سے ازراہ نوازش پیش کیا جارہا ہے۔



وائٹ ہاؤس
واشنگٹن، ڈی سی
9 دسمبر 2021

ساؤتھ کورٹ آڈیٹوریم
صبح 8:12 ای ایس ٹی

صدر: سب کو ہیلو اور جمہوریت کی پہلی سربراہی کانفرنس میں سب کو خوش آمدید۔

یہ اجتماع ایک سادہ سی وجہ سے میرے ذہن پر کافی عرصے سے چھایا ہوا ہے۔ وہ وجہ یہ ہے کہ جمہوریت، اور عالمی انسانی حقوق کو درپیش مستقل چیلنجوں کی وجہ سے پوری دنیا ٘میں جمہوریت کو پرزور حامیوں کی ضرورت ہے۔

اور میں یہاں امریکہ میں اس سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنا چاہتا تھا کیونکہ ہمارے علاوہ بھی ہر کوئی جانتا ہے کہ ہماری جمہوریت کی تجدید اور ہمارے جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کے لیے پیہم کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

امریکی جمہوریت ہمارے ارفع ترین نظریات پر قائم رہنے اور اپنی تقسیم پر قابو پانے؛ اور اپنے آپ کو ہماری قوم کے اُس بانی نظریے سے ازسرنو جوڑنے کی ایک جہد مسلسل ہے جو ہمارے اعلان آزادی سے اخذ کیا گیا ہے۔

ہم یہ کہتے ہیں: "ہم ان سچائیوں کو اپنا ثبوت آپ سمجھتے ہیں" کہ تمام عورتیں اور مرد یکساں تخلیق کیے گئے ہیں۔ اُنہیں اُن کے خالق کی طرف سے ودیعت کیے گئے وہ ناقبال تنسیخ حقوق حاصل ہیں جن میں زندگی، آزادی، اور خوشی کی جستجو بھی شامل ہیں۔

جمہوریت حادثاتی طور پر وجود میں نہیں آتی۔ ہماری ہر نسل کو اس کی تجدید کرنا ہوتی ہے۔ اور میری نظر میں ہم سب کے لیے یہ ایک فوری معاملہ ہے۔ کیونکہ جو اعداد و شمار ہم دیکھ رہے ہیں وہ بڑی حد تک غلط سمت کی طرف اشارہ کر ر ہے ہیں۔

فریڈم ہاؤس کی 2020 کی رپورٹ میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ عالمگیر آزادی مسلسل پندرھویں برس پسپائی کا شکار رہی۔

جمہوریت اور انتخابی اعانت کے بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تمام جمہوریتوں میں سے نصف سے زیادہ کو گزشتہ 10 سالوں میں امریکہ سمیت، اپنی جمہوریت کے کم از کم ایک پہلو کے حوالے سے انحطاط کا تجربہ ہوا ہے۔

اوراِن رجحانات میں ایسے عالمی چیلنجوں کی وجہ سے اضافہ ہو رہا ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں۔ان خدشات کو دور کرنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ وہ خدشات یہ ہیں:

بیرونی دنیا کے آمروں کا دباؤ: وہ اپنے اقتدار کو پروان چڑہانے، دنیا بھر میں اپنا اثرورسوخ پیدا کرنے اور پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اپنی جابرانہ پالیسیوں اور طرز عمل کو ایک زیادہ موثر جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ سودا ایسے ہی بیچا جاتا ہے۔

وہ آوازیں: جو سماجی تقسیم اور سیاسی مخاصمت کے شعلوں کو بھڑکانے کی کوشش کرتی ہیں۔

اور شاید سب سے اہم اور سب سے زیادہ پریشان کن امر یہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں لوگوں میں ایسی جمہوریتوں کے خلاف عدم اطمینان میں اضافہ کر رہے ہیں جن کے بارے میں وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ لوگوں کی ضروریات پوری کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

میری نظر میں یہ ہمارے وقتوں کا ایک سنگین چیلنج ہے۔

جمہوریت یعنی عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کے لیے، بعض اوقات نازک بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ فطری طور پر لچکدار بھی ہوتی ہے۔ یہ خود کو ٹھیک کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اور یہ خود کو بہتر بنانے کی اہلیت رکھتی ہے۔

اور ہاں، جمہوریت مشکل ہے۔ یہ ہم سب جانتے ہیں۔ مگر یہ اتفاق رائے اور تعاون کی صورت میں بہترین طریقے سے کام کرتی ہے۔ جب لوگ اور جماعتیں جو ہو سکتا ہے متضاد نظریات رکھتی ہوں، مل بیٹھتے ہیں اور اکٹھے کام کرنے کے طریقے تلاش کرتے ہیں تو چیزیں کام کرنے لگتی ہیں۔

لیکن یہ انسانی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے اور انسانی وقار کے دفاع اور بڑے مسائل کو حل کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ اور اس بات کے درست ثابت کیے جانے کا انحصار ہم پر ہے۔

سب جمہوریتیں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ اس اجلاس میں موجود ہم سب کی طرح، ہم ہر بات پر متفق نہیں ہوتے۔ لیکن جو انتخاب ہم مل کر کریں گے میری نظر میں وہ آنے والی کئی نسلوں تک ہمارے مشترکہ مستقبل کا تعین کریں گے۔

اور جمہوریت کی عالمی برادری کی حیثیت سے ہمیں اُن اقدار کے لیے کھڑا ہونا ہوگا جو ہمیں متحد کرتی ہیں۔

ہمیں انصاف اور قانون کی حکمرانی، آزادیِ اظہار، آزاد اجتماع، آزاد پریس، مذہبی آزادی، اور ہر فرد کے تمام موروثی انسانی حقوق کے لیے کھڑا ہونا پڑے گا۔

میرے آنجہانی دوست، کانگریس مین جان لوئس امریکی جمہوریت اور دنیا بھر میں شہری حقوق کے عظیم چمپیئن تھے۔ انہوں نے گاندھی اور منڈیلا جیسے دیگر عظیم رہنماؤں سے سیکھا اور ان سے متاثر ہوئے۔

گزشتہ برس انہوں نے بستر مرگ سے اپنی قوم کے نام آخری الفاظ کے ذریعے ملک کو یاد دلایا اور میں اُن کے الفاظ نقل کرتا ہوں، "جمہوریت ایک ریاست نہیں بلکہ ایک عمل ہے۔" "جمہوریت ریاست نہیں بلکہ ایک عمل ہے۔"

لہذا، اگلے دو دنوں میں ہم 100 سے زائد حکومتوں کے رہنماؤں، سرگرم کارکنوں، ٹریڈ یونینوں سے تعلق رکھنے والوں، اور سول سوسائٹی کے دیگر اراکین، سرکردہ ماہرین اور محققین، اور کاروباری برادری کے نمائندوں کو ایک جگہ اکٹھا کر رہے ہیں۔ ایسا یہ زور ینے کے لیے نہیں کر رہے کہ ہماری جمہوریتوں میں سے کوئی ایک جمہویت کامل جمہوریت ہے یا اس کے پاس تمام مسائل کے حل موجود ہیں۔ بلکہ اس کا تعلق پرامن طریقے سے بیٹھنے اور اپنی جمہوریتوں کو بہتر بنانے، ایک دوسرے کے ساتھ خیالات شیئر کرنے اور سیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی جمہوریتوں کو مضبوط بنانےاور آمریت کی مخالفت کرنے، بدعنوانی کا خاتمہ کرنے، ہر جگہ لوگوں کے انسانی حقوق کو فروغ دینے اور ان کا تحفظ کرنے کے طریقوں کے بارے میں ٹھوس وعدے کرنے کے لیے اپنے عزم کی توثیق کرنا ہے۔

یہ سربراہی اجلاس ہمارے تمام ممالک کے لیے اپنے وعدوں پر عمل کرنے والے ایک سال کی ابتدا ہے اور ہم نے جو پیش رفت کی ہوگی اس کے بارے میں اگلے سال آگاہ کریں گے۔

اور ایسے میں جب ہم یہ کام کریں گے تو امریکہ مثال قائم کرتے ہوئے رہنمائی کرے گا۔ ہم ایسا اپنی جمہوریت میں سرمایہ کاری کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں اپنے شراکت داروں کی مدد کرکے کریں گے۔

اپنی انتظامیہ کے ابتدائی دنوں سے ہم نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ امریکی جمہوریت اب بھی بڑے کام کر سکتی ہے اور انتہائی اہمیت کے حامل چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتی ہے، ہم نے ایک وسیع البنیاد ایجنڈے پر عمل کیا۔

اسی لیے ہم نے فوری طور پر ایک منصوبے کی منظوری دی جسے ہم امریکہ کا بچاؤ کا منصوبہ کہتے ہیں۔ اس کا مقصد ملک کے اندر اور پوری دنیا میں لوگوں کو کے ٹیکے لگانا تھا تاکہ اس وبا پر قابو پایا جا سکے اور شمولیت والی معیشت کی ایک ایسی پائیدار بحالی کو تیز کیا جا سکے جو عالمی نمو کو تحریک دینے میں بھی مدد گار ثابت ہو۔

گزشتہ ماہ مجھے دو طرفہ حمایت یافتہ ایک ایسے قانون پر دستخط کرنے پر فخر محسوس ہوا جو ہمارے ملک میں ڈیموکریٹک اور ری پبلکن کے درمیان اتفاق رائے کا ایک عملی ثبوت ہے۔ یہ بنیادی ڈہانچے اور ملازمتوں میں سرمایہ کاری کا قانون ہے۔

اس قانون کے تحت اکیسویں صدی میں لوگوں کی سب سے اہم ضروری سہولتوں کی فراہمی کے لیے نسلوں میں ایک بار کی جانے والی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ ان کا تعلق صاف پانی، محفوظ سڑکوں، تیز رفتار براڈ بینڈ انٹرنیٹ، اور دیگر بہت سی اشیاء سے ہے۔ یہ سب کچھ اچھی تنخواہ والی یونین کی ملازمتیں پیدا کرکے ہماری جمہوریت کو مضبوط بناتا ہے۔ اس کے نتیجے میں محنت کش مواقع سے بھری اور پروقار زندگیاں گزاریں گے۔ انہیں ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے درکار ذرائع اور وسائل تک بہتر رسائی حاصل ہوگی۔

مجھے امید ہے کہ میں اس کے بارے میں بل پر دستخط کرکے اسے قانونی شکل دوں گا۔ "بِلڈ بیک بیٹر" کہلانے والا یہ منصوبہ ہمارے لوگوں اور ہمارے محنت کشوں کے ایک غیر معمولی سرمایہ کاری ہوگا اور یہ امریکی گھرانوں کے لیے اپنے مسائل سے نمٹنے اور مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے تھوڑی سی مزید گنجائش پیدا کرے گا۔

ہمارا ملکی ایجنڈا امریکی عوام کی ضروریات کو پورا کرنے اور اندرونِ ملک اپنے جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے پر مرکوز ہے۔

دفتر میں اپنے پہلے دن ہی میں نے نسلی انصاف اور مساوات کو فروغ دینے کی خاطرایک انتظامی حکم نامے پر دستخط کیے۔ میری انتظامیہ نے حال ہی میں صنفی مساوات اور وسائل کی مساویانہ تقسیم کے بارے میں اپنی پہلی قومی پالیسی جاری کی ہے۔

ہم محنت کشوں کی طاقت کو بڑہا رہے ہیں کیونکہ یونین بنانے والے محنت کشوں کو اُن کے کام کی جگہ پر، ان کی کمیونٹیوں میں، اور ان کے ملک میں شامل کرنا معاشی یکجہتی کا محض ایک عمل ہی نہیں بلکہ جمہوریت کی ایک عملی شکل بھی ہے۔

ہم امریکیوں کے لیے ووٹ کے لیے رجسٹریشن کرانا آسان بنا رہے ہیں، اور ہم نے اپنے محکمہ انصاف کے ذریعے ووٹنگ کے حقوق کے قوانین کا دفاع کرنے اور ان کو نافذ کرنے والے وکلاء کی تعداد کو دوگنا کر دیا ہے۔

اور میری انتظامیہ قانون سازی کے اُن دو اہم بلوں کو منظور کرانے کے لیے جدوجہد کرتی رہے گی جو امریکی جمہوریت کی اِس بنیاد کو یعنی ہر فرد کو یہ مقدس حق حاصل ہونا کہ وہ آزادانہ، منصفانہ اور محفوظ انتخابات کے ذریعے اپنی آواز آگے پہنچائے، مضبوط کریں گے۔

ہمیں ووٹنگ کی تفریق کو روکنے، بیلٹ بکس تک رسائی، اور ووٹروں کی مرضی کو مقدم رکھنے کو یقینی بنانے اور بہت کچھ۔ دیگر کے لیے بنیادیں فراہم کرنے کی خاطر ووٹ دینے کی آزادی کا قانون اور ووٹ دینے کے فروغ کے لیے جان لوئس کا قانون منظورکرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں لوگوں کے ووٹ ڈالنے کو مشکل نہیں آسان بنانا چاہیے۔ اور میری انتظامیہ کی یہ ترجیح اُس وقت تک برقرار رہے گی جب تک کہ ہم اسے عملی شکل نہیں دے دیتے۔

بےعملی متبادل راستہ نہیں ہے۔

اور ایسے وقت جب ہم امریکہ کو ایک "کامل تر یونین" کے قریب لانے کے لیے ملک کے اندر کام کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں، ہم دنیا بھر کی جمہوریتوں کے ساتھ اپنے میل جول اور حمایت کو بڑہاتے ہوئے اسے دوگنا کر رہے ہیں۔

میں نے اس ہفتے کے اوائل میں انسداد بدعنوانی سے متعلق امریکی حکومت کی پہلی حکمت عملی جاری کی جو بین الاقوامی بدعنوانی کے خلاف ہماری جنگ کو نئی بلندیوں پر لے جائے گی۔ بدعنوانی ایک ایسا جرم ہے جو عوامی وسائل کو ضائع کرتا ہے اور حکومتوں کی عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کی صلاحیت کو کمزور کرتا ہے اور اُس اعتماد کو ختم کرتا ہے جس کا لوگوں کا اپنی حکومت پر ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔

اس حکمت عملی میں شفافیت کو بہتر بنانے، بدعنوان عناصر کو جوابدہ ٹھہرانے، اثاثے چھپانے اور منی لانڈرنگ کے لیے امریکہ اور بین الاقوامی مالیاتی نظام کو استعمال کرنے کی ان کی صلاحیت کو کم کرنے کے لیے دنیا بھر میں دیگر شراکت کاروں اور آپ سب کے ساتھ مل کر کام کرنا شامل ہے۔

آج مجھے صدارتی اقدام برائے جمہوری تجدید کا آغاز کرنے پر فخر ہے۔ اس اقدام کے تحت ہماری سفارت کاری اور غیرملکی امداد کے پروگراموں کی تمام کوششوں پر توجہ مرکوز کی جائے گی تاکہ عالمگیر سطح پر جمہوری لچک اور انسانی حقوق کو مضبوط بنایا جا سکے۔

اپنی کانگریس کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہم شفاف اور جوابدہ طرز حکمرانی کو فروغ دینے کے لیے اگلے سال 224 ملین ڈالر وقف کرنےکا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ اس میں میڈیا کی آزادی کی حمایت، بین الاقوامی بدعنوانی کے خلاف جنگ، جمہوری اصلاح کاروں کے ساتھ کھڑا ہونا، جمہوریت کو بڑہاوا دینے والی ٹکنالوجی کو فروغ دینا، اس بات کا تعین اور دفاع کرنا شامل ہے کہ منصفانہ انتخاب کیا ہوتا ہے۔

میں آپ کو اس قسم کے کام کی چند مثالیں دیتا ہوں جو کہ اس منصوبے کے تحت کیے جائیں گے: یعنی ایک آزاد اور خود مختار میڈیا جو کہ جمہوریت کی اساس ہے۔ اس کے ذریعے ہی عوام کو باخبر رکھا جاتا ہے اور حکومتوں کو جوابدہ ٹھہرایا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں آزادی صحافت خطرے سے دوچار ہے۔ لہذا ہم دنیا بھر میں آزاد میڈیا کو برقرار رکھنے کے لیے ایک نئی کثیر الجہتی کوشش یعنی عوامی مفاد کے میڈیا کے لیے ہم اپنے بین الاقوامی فنڈ کی بنیاد رکھنے کے لیے انتہائی اہم بنیادی رقم مختص کر رہے ہیں۔ اور ہم يو ايس ايڈ کے ذریعے صحافیوں کے ایک نئے ڈیفیمیشن ڈیفنس فنڈ قائم کرنے جا رہے ہیں تاکہ تفتیشی صحافیوں کو اپنا انتہائی اہم کام کرنے سے روکنے کے لیے تنگ کرنے کے لیے قائم کیے گئے مقدمات کے خلاف تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ ہم پوری سول سوسائٹی، میڈیا، تعلیمی اداروں، اور محنت کش شعبے میں انسداد بدعنوانی کی سرگرمیوں کو مربوط کرنے میں مدد کے لیے ایک نئے پروگرام کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔ اسی طرح ہم اطلاع دينے والے گمنام افراد کی حفاظت اور شراکت داروں کی منی لانڈرنگ اور محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنے میں مدد کرنے بھی جا رہے ہیں۔

اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ہماری جمہوریتیں تمام شہریوں کی آوازوں سے توانا ہوں، اس صدارتی اقدام میں خواتین اور لڑکیوں اور شہریوں اور سیاسی قیادت کے ساتھ مل کر کام کرنے کو فروغ دینا، ايل بی جی ٹی کیو ایل افراد کو با اختیار بنانا شامل ہے تاکہ وہ جمہوری اداروں میں حصہ لے سکیں، محنت کے قوانیں میں اصلاحات اور محنت کشوں کی تنظیموں کو کو فروغ دے سکیں۔ اس میں آن لائن ہراسانی اور زیادتیوں سے نمٹنے کے لیے اپنے شراکت داروں کے ہمراہ نئے خطوط پر کی جانے والی کوششیں بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ نگرانی کی ٹیکنالوجیوں، اپنے عوام کے ذاتی خیالات کے اظہار کے حقوق کو دبانے سمیت دنیا کے ممالک کے نئی ٹیکنالوجیوں کے غلط استعمال کی صلاحیتوں میں کمی لانا بھی اِن کوششوں میں شامل ہیں۔ اور ہم دو تیز ردعملوں کے حامل، ہمہ جہتی منصوبے شروع کرنے جا رہے ہیں جو اس سربراہی اجلاس کے کلیدی اہداف کے حصول میں مدد کریں گے۔ یہ ہیں فنڈ برائے تجدیدِ جمہوریت اور شراکت داری برائے جمہوری پروگرام۔ اس سے محکمہ خارجہ اور يو ايس ايڈ کو دنیا بھر میں جمہوری محاذوں پر کام کرنے والے ہمارے شراکت داروں کی مدد کے لیے فنڈز میں اضافہ کرنے کی اجازت ہوگی۔ میرے ساتھی رہنماؤ، سول سوسائٹی کے اراکین، کارکنان، وکلاء، شہریو میری نظر میں ہم اپنی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں۔ میرے خیال میں اس وقت ہم جو انتخاب کریں گے وہ بنیادی طور پر اس بات کا تعین کریں گے کہ آنے والی دہائیوں میں دنیا کس سمت میں جائے گی۔ کیا ہم حقوق اور جمہوریت کی تنزلی کو بغیر روک ٹوک کے جاری رہنے دیں گے؟ یا کیا ہمارے پاس کوئی مشترکہ وژن ہوگا– اور نہ صرف "ایک" وژن ہوگا بلکہ ایک بار پھر انسانی ترقی اور انسانی آزادی کے مارچ کو آگے بڑھانے کی ہمت بھی ہوگی؟ مجھے یقین ہے کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں اور ہم ایسا ہی کریں گے بشرطیکہ ہمیں خود پر اور اپنی جمہوریتوں پر اور ایک دوسرے پر یقین ہو۔ یہ سربراہی اجلاس اسی کے بارے میں ہے۔

میں ایک نتیجہ خیز اجلاس اور بات چیت کا متمنی ہوں جو ہم اگلے دو دنوں میں کريں گے۔ میں ان رابطوں کا منتظر ہوں جو ہم اپنے کام کو آگے بڑھنے میں مدد کے لیےاستوار کریں گے۔ تو آئیے کام شروع کرتے ہیں۔ آپ سب کے صبر کا بہت بہت شکریہ۔ اختتام 8:25 صبح ای ایس ٹی


اصل عبارت پڑھنے کا لِنک : https://www.whitehouse.gov/briefing-room/speeches-remarks/2021/12/09/remarks-by-president-biden-at-the-summit-for-democracy-opening-session/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔


This email was sent to stevenmagallanes520.nims@blogger.com using GovDelivery Communications Cloud on behalf of: Department of State Office of International Media Engagement · 2201 C Street, NW · Washington, DC · 20520 GovDelivery logo

No comments:

Page List

Blog Archive

Search This Blog

Prescription Drugs News Update

Offices of the United States Attorneys   You are subscribed to Prescription Drugs ...