Tuesday, November 2, 2021

صدر بائیڈن کا سی او پی 26 میں ”عملی اقدام اور یکجہتی: اہم دہائی” کے موضوع پر اجلاس سے خطاب

Department of State United States of America

یہ ترجمہ امریکی دفترخارجہ کی جانب سے ازراہ نوازش پیش کیا جارہا ہے۔



وائٹ ہاؤس
یکم نومبر، 2021
سکاٹش ایونٹ کیمپس
گلاسگو، سکاٹ لینڈ

صدر بائیڈن: آپ کا بہت شکریہ۔ مجھے یہ اتارنے دیجیے۔ مجھے اس وقت بُلائے جانے کی توقع نہیں تھی۔

وزیراعظم جانسن: میں معذرت چاہتا ہوں۔

صدر بائیڈن: کوئی بات نہیں۔ نہیں، مجھے خوشی ہے۔

مجھے اپنے ساتھی رہنماؤں سے یہ کہنا ہے کہ ہم گلاسگو میں اس لیے جمع ہوئے ہیں کیونکہ میرے خیال میں ۔۔ یہ ایک بہت اہم دہائی ہے۔ اس کا تعلق صرف 2050 تک کی ماحولیاتی صورتحال سے نہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دہائی اس بات کا تعین کرے گی کہ آیا ہم اپنے اہداف حاصل کر پاتے ہیں یا نہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ مستقبل کے مورخ جب 2020 پر نظر ڈالیں گے تو وہ دیکھیں گے کہ – ہم نے اس بحران پر قابو پانے کا یہ آخری موقع اس لیے ہاتھ سے کھو دیا کیونکہ یا تو ہم نے عملی اقدام کے لیے بہت کم کوشش کی یا اس میں سرے سے ہی ناکام رہے۔ دوسری صورت میں وہ یہ دیکھیں گے کہ 2020 میں ہم آگے بڑھے اور ہم نے ایسے اقدامات کیے جن کی بدولت دنیا کو اس مسئلے پر متحد کرنے میں مدد ملی اور بڑے ممالک نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اپنی سرحدوں سے باہر بھی اپنی وسیع تر ذمہ داریاں پوری کیں۔

ہمیں عملی اقدامات اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔ ہم سب یہ بات جانتے ہیں۔ اگر میں کوئی ایسی بات دہراؤں جو آپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں تو اس پر معذرت چاہوں گا۔

امریکہ، اگر – اگر مجھے اس معاملے میں کچھ کرنا پڑا تو – میں اپنا کردار ادا کروں گا۔

میں آج صبح کہہ چکا ہوں کہ ہم نے 2030 تک امریکہ میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو 2005 کی سطح سے 50 تا 52 فیصد نیچے لانے کے پُرعزم اہداف مقرر کیے ہیں۔ یہ ہدف عالمی حدت کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنے سے مطابقت رکھتا ہے۔ تاہم یہ حساب کتاب صرف اسی وقت کام کرتا ہے جب ہر ملک اپنا کردار ادا کرے اور جن ممالک کے پاس وسائل نہیں ہیں انہیں وہ مدد مل سکے جس کی انہیں ضرورت ہے۔

میری رائے میں ہر بڑی معیشت کو پیرس معاہدے میں طے شدہ اپنے اہداف کو اس سطح تک مزید آگے لے جانا ہوں گے کہ ہمارا مجموعی ہدف ہماری دسترس میں رہے۔ اس کے بعد دنیا بھر کے ممالک کو اپنے معیارات بڑھانا ہوں گے۔ ترقی پذیر ممالک کو اپنے ہاں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے لیے بامعنی اقدامات کرنا ہوں گے تاہم اس کے لیے انہیں دوسروں کی مدد درکار ہو گی۔

میرے خیال میں ہماری کامیابی اس سمت میں اپنی رفتار تیز کرنے، موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے لیے اپنے عزائم کو مزید مضبوط کرنے، اس دہائی میں عالمی حدت کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنے کے ہدف کو اپنی دسترس میں لانے اور حقیقت پسندانہ انداز میں سوچنے کے بارے میں ہمارے مجموعی عزم پر منحصر ہے۔

ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معیشتوں کو اس معاملے میں اکٹھے کھڑا ہونا ہو گا اور ایک دوسرے سے جواب طلبی کرنا ہو گی۔ ان میں بہت سے ممالک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے مقابلے میں انتہائی غیرمحفوظ ہیں۔ امریکہ یہ بات سمجھتا ہے کہ ہم ان ترقی پذیر ممالک کو یہ اقدامات اٹھانے میں مدد دینے کا اپنا فریضہ پورا کریں گے کیونکہ انہیں ہماری مدد کی ضرورت ہو گی۔

میں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اعلان کیا تھا کہ ہم 2024 تک موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے دیے جانے والی مالی وسائل کو کانگریس کے تعاون سے چار گنا بڑھانے کا عزم رکھتے ہیں جن میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے موافقت پیدا کرنے کے لیے مہیا کیے جانے والے وسائل بھی شامل ہیں۔

جیسا کہ میں ںے پہلے کہا، ہم اس موافقتی فنڈ میں اپنا پہلا حصہ بھی ڈالیں گے۔

میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اس بات پر معذرت نہیں کرنی چاہیے، تاہم میں اس حقیقت پر معذرت چاہتا ہوں کہ گزشتہ امریکی انتظامیہ نے پیرس معاہدوں سے علیحدگی اختیار کر کے ہمیں قدرے مشکل صورتحال میں لاکھڑا کیا۔ میں نے منتخب ہونے کے بعد پہلا کام یہی کیا کہ ان معاہدوں میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے دوست سر ہلا رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم قبل ازیں اس پر بات کر چکے ہیں جب میں انتخاب لڑ رہا تھا۔

لیکن آج میں موسمیاتی تبدیلی سے موافقت پیدا کرنے اور اس کے خلاف خود کو مضبوط بنانے کے لیے ہنگامی صدارتی منصوبے (پریذیڈنشیئل ایمرجنسی پلان فار ایڈاپٹیشن اینڈ ری سائلنس) کا اعلان بھی کر رہا ہوں۔ اگرچہ میں نے مخففات سے بچنے کی بہت کوشش کی لیکن ایسا نہ ہو سکا، اس لیے آپ اسے "پریپیئر" کا نام دے سکتے ہیں۔ (قہقہے) ہم اسے اسی نام سے پکار رہے ہیں۔

تاہم پریپیئر دنیا بھر میں نصف بلین سے زیادہ لوگوں کو موسمیاتی تبدیلی سے موافقت پیدا کرنے میں مدد دینے کے لیے امریکی حکومت کے وسائل اور مہارتیں کام میں لانے کے لیے ایک جامع فریم ورک کے طور پر کام کرے گا۔

ہم بروقت انتباہ کا نظام بنانے اور ماحول دوست توانائی کو فروغ دینے پر سرمایہ کاری کریں گے اور خشک سالی پر قابو پانے، پائیدار جنگلات اور زراعت کی ترقی میں مدد دینے، فطری ماحول کو موسمیاتی تبدیلی کا باعث بننے والے عوامل اور اس کے اثرات میں کمی لانے کے قابل بنانے، اہم بنیادی ڈھانچے کے تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی کے وسیع تر اثرات کے مقابل غیرمحفوظ ممالک کو مضبوط کرنے پر سرمایہ کاری کریں گے۔

اگر ہمارے پاس مزید وقت ہوتا تو ہم اس تفصیل میں جاتے کہ ہم ایسا کرنے کے لیے کون سے اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہم نیٹ۔ زیرو عالمی اقدام بھی شروع کر رہے ہیں جس کا مقصد دوسرے ممالک کے لیے امریکہ کی تکنیکی مہارتوں بشمول اس کی بہترین قومی تجربہ گاہوں سے استفادہ ممکن بنانا اور ترقی پذیر ممالک کی توانائی کے ایسے نظام کی جانب منتقلی کی رفتار تیز کرنے میں مدد دینا ہے جو سستے، قابل بھروسہ اور ماحول دوست ہوں۔

میرے خیال میں ہم سب کو اس حوالے سے جو بات یاد رکھنی چاہیے اور میرا یہ کہنا شاید ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی ہو گی کہ ہم سب کو جو بات بات یاد رکھنی ہے وہ یہ کہ ہمیں یہ یقینی بنانا ہے کہ ہمارے لوگ یہ بات سمجھیں کہ ماحول دوست توانائی پر مبنی مستقبل کے لیے ہماری سرمایہ کاری کا واحد مقصد موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا نہیں ہے۔ جیسا کہ میں نے کچھ دیر یہاں موجود تمام لوگوں کے سامنے کہا اور میں اسے دہرانے پر معذرت چاہتا ہوں، یہ ہمارے کارکنوں کے لیے اچھی اجرت والی نوکریاں تخلیق کرنے اور اپنی طویل مدتی معاشی ترقی میں اضافے کا ایک بہت بڑا موقع بھی ہے جس سے تمام لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم عزم کر لیں تو یہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔

ہم اس سرمایہ کاری سے صرِف نظر کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہم سبھی کو آگے بڑھنا ہو گا اور انگریزی محاورے کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہم یہ ذمہ داری نبھا سکتے ہیں۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں یہاں گلاسگو میں ہمارا اجلاس اس سفر کا اختتام نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کہ سبھی اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہیں یا بہت سے ایسے بھی ہیں جو مجھ سے بہتر طور پر جانتے ہیں۔ یہ صرف نکتہء آغاز ہے اور یہ واقعتاً ایک فیصلہ کن اقدام ہے جو یہ تعین کرے گا کہ آیا ہم موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کے قابل ہو سکیں گے یا نہیں اور کیا ہم اپنے تمام لوگوں کے لیے ایک محفوظ تر اور خوشحال مستقبل کا وعدہ پورا کر پائیں گے یا نہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہم یہ کر سکتے ہیں۔ میری والدہ، خدا ان پر رحمت کرے، کہا کرتی تھیں کہ "اگر آپ کڑی محنت کریں تو ہر بری چیز سے اچھی شے برآمد ہو سکتی ہے۔" میں جانتا ہوں کہ امریکہ میں، میری پشت پر موجود سابق سیکرٹری کیری اور سینیٹر کیری جیسے لوگوں کی رہنمائی کی بدولت، امریکہ کے لوگ موسمیاتی تبدیلی کے حقیقی ہونے کے بارے میں جو کچھ جان گئے ہیں اتنا وہ چار یا پانچ سال پہلے نہیں جانتے تھے۔

جیسا کہ میری ریاست کے جنوبی حصوں میں کہا جاتا ہے، وہ اسے دیکھ چکے ہیں۔ انہوں نے خود دیکھ لیا ہے کہ کیا ہوا، وہ رونما ہونے والی غیرمعمولی تبدیلیوں سے آگاہ ہو چکے ہیں۔ بالاآخر اب انہیں فوری اقدامات کی ضرورت کا اسی طرح احساس ہو گیا ہے جیسا کہ آپ سبھی کو ہے۔

اسی لیے، جیسا کہ میں نے کہا، ہمارے پاس ذرائع موجود ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے پاس اس حوالے سے سمجھ بوجھ اور وسائل موجود ہیں۔ لیکن ہمیں کچھ انتخاب کرنا ہے۔ میں یہاں سے ہٹنے پر معذرت چاہتا ہوں۔

میں اس بارے میں موسمیاتی تبدیلی پر خصوصی صدارتی نمائندے، اپنے دیرینہ دوست اور اس مسئلے پر حقیقی ماہر کی حیثیت رکھنے والے سیکرٹری کیری سے بات کرنے کو کہوں گا۔ اس سال انہوں نے غیرمعمولی کام کیا ہے۔

تاہم مجھے یہ کہتے ہوئے اپنی بات ختم کرنے کی اجازت دیجیے کہ میں پوری دیانت داری سے کہتا ہوں کہ ہمارے پاس یہ بہت اچھا موقع ہے جس سے دنیا فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہے۔

لیکن میں دوبارہ اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ میرے خیال میں ہم میں سے وہ ممالک جنہوں نے بہت عرصہ پہلے جنگلات کاٹے تھے، جنہوں نے بہت عرصہ پہلے ایسے اقدامات کیے تھے جو آج ہمیں درپیش مسائل کا باعث ہیں انہیں تنزانیہ سے فجی تک ہر اس ملک کی مدد کے لیے آگے بڑھنا ہو گا جسے اس کی ضرورت ہے۔

اگلی بات جو میں نے آپ کو بتانا ہے وہ یہ کہ اب میں نے آئندہ قدم اپنے ملک میں اٹھانا ہے۔ ہمارے لوگ جانتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے اور اب وہ اس معاملے میں آگے بڑھنے کو تیار ہیں۔ لیکن ہمیں یہ یقینی بنانا ہے کہ انہیں علم ہو کہ یہ امریکہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسرے ممالک کی مالی مدد کرے جنہوں نے ماحول کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا ہم نے پہنچایا ہے اور ان کے مقابلے میں ہمارے پاس بہتری لانے کا زیادہ بڑا موقع ہے۔

بہرحال، آپ کا بہت شکریہ۔ پرانے دوست، مجھے گفتگو کا موقع دینے کا بہت شکریہ۔ میں اس کی قدر کرتا ہوں۔


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.whitehouse.gov/briefing-room/speeches-remarks/2021/11/01/remarks-by-president-biden-at-the-cop26-event-on-action-and-solidarity-the-critical-decade/ 

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔


This email was sent to stevenmagallanes520.nims@blogger.com using GovDelivery Communications Cloud on behalf of: Department of State Office of International Media Engagement · 2201 C Street, NW · Washington, DC · 20520 GovDelivery logo

No comments:

Page List

Blog Archive

Search This Blog

For You: Becoming Trump Country

Plus, Trump Signals a 'Seismic Shift,' Shocking the Washington Establishment November 17, 202...