Sunday, September 26, 2021

وزیر خارجہ اینٹونی جے بلنکن کی صحافیوں سے بات چیت

Department of State United States of America

یہ ترجمہ امریکی دفترخارجہ کی جانب سے ازراہ نوازش پیش کیا جارہا ہے۔



امریکی دفتر خارجہ
دفتر برائے ترجمان
تقریر
23 ستمبر 2021

پیلس ہوٹل
نیویارک سٹی، نیویارک

وزیر خارجہ بلنکن: سبھی کو سہ پہر بخیر۔ میرا خیال ہے یہ کہنا درست ہو گا کہ ہم نے یہاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں چند مصروف دن گزارے ہیں۔

درحقیقت صدر بائیڈن کے حکومت سنبھالنے کے بعد اس ہفتے یہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا پہلا اجلاس ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس دوران صدر کی قیادت میں دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے امریکہ کی سوچ سب کے سامنے آئی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ جب امریکہ سامنے آتا ہے، دوسروں کی بات سنتا اور قیادت فراہم کرتا ہے تو اس سے بہتری جنم لیتی ہے اور ہمیں دورِ حاضر کے بہت بڑے مسائل پر قابو پانے کی کوشش میں دوسروں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لیے ایک منفرد پلیٹ فارم میسر آتا ہے۔ اس سے ہمیں ایسے قوانین اور ادارے مضبوط بنانے میں مدد ملتی ہے جنہوں نے سالہا سال سے ہماری اقدار کے دفاع اور ہمارے مفادات کے فروغ میں مدد دی ہے۔ آخرکار یہ سب کچھ امریکی عوام کو فائدہ پہنچانے کی کوشش میں خاص اہمیت رکھتا ہے جو کہ ہماری خارجہ پالیسی کے پیچھے کارفرما ایک جاندار اصول ہے۔

یہ بات خاص طور پر اہم ہے کہ جب انتہائی طاقتور ممالک سمیت کچھ لوگ ایسے قوانین اور اصولوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو اقوام متحدہ کی بنیاد ہیں تو ایسے میں ہم سامنے آئے ہیں۔ یہ وہ اصول اور قوانین ہیں جن کی پاسداری اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک پر لازم ہے۔ انہوں نے اِن پر اس مشترکہ ادراک کیوجہ سے اتفاق کیا تھا کہ اس سے ناصرف انسانیت کے مفادات کی تکمیل ہو گی بلکہ ان کے اپنے مفادات کو بھی فروغ ملے گا اور یہ بات آج بھی درست ہے۔

انہوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا تھا کہ انسانی حقوق اور وقار کا فروغ اس کام کا ایک بنیادی حصہ ہے اور یہ حقوق ایسی انفرادی اقدار نہیں ہیں جو سماج کے حساب سے تبدیل ہو جاتی ہیں بلکہ یہ حقوق عالمگیر ہیں۔ انہوں نے اس دعوے کو رد کیا جو ہم آج کل کبھی کبھار سنتے ہیں کہ حکومتیں اپنی سرحدوں کے اندر اپنے لوگوں کے ساتھ جس طرح کا بھی سلوک روا رکھیں یہ اُن کا اندرونی معاملہ ہوتا ہے۔

اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جب ہم خاص طور پر اقوام متحدہ جیسے بڑے فورم پر دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں تو ہم ان کی ہر بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ جیسا کہ صدر بائیڈن نے کہا، ہم اس لیے اکٹھے چلتے ہیں کیونکہ یہ 21ویں صدی کی بنیادی سچائی ہے کہ ہماری اپنی کامیابی دوسروں کی کامیابی سے جڑی ہوئی ہے۔ اپنے لوگوں کو فوائد پہنچانے اور دورحاضر کے واقعتاً عالمگیر مسائل سے نمٹنے کے لیے ہمیں دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر ہی کام کرنا ہو گا۔

اسی لیے آپ نے دیکھا ہے کہ امریکہ اپنے اتحادوں اور شراکتوں کو دوبارہ مضبوط بنانے کے لیے کس قدر پُرعزم کوششیں کر رہا ہے۔ ہم نے نیٹو اور خاص طور پر اس کے آرٹیکل 5 اور مشرقی ایشیا میں اپنے اتحادیوں کے دفاع سے اپنی غیرمتزلزل وابستگی کی ازسرنو توثیق کی ہے۔ ہم یورپی یونین کے ساتھ اپنے تعلقات کی تجدید کر رہے ہیں، انہیں وسعت دے رہے ہیں اور انہیں مزید مضبوط کر رہے ہیں۔ اسی طرح ہم کواڈ شراکت داری کو بھی مزید موثر بنا رہے ہیں اور ہم آسیان سے افریقن یونین اور براعظم ہائے امریکہ کے ممالک کی تنظیم تک، تمام علاقائی اداروں کے ساتھ دوبارہ تعلق استوار کر رہے ہیں۔

یقیناً ہم اقوام متحدہ کے اداروں سے اپنے تعلقات کو بھی دوبارہ مضبوط کر رہے ہیں۔ ہم نے عالمی ادارہ صحت اور پیرس ماحولیاتی معاہدے میں دوبارہ شمولیت اختیار کی ہے اور ہم انسانی حقوق کی کونسل میں نشست حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح ہم نے اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ اور ایل جی بی ٹی آئی کے کور گروپ سے بھی دوبارہ رابطے قائم کیے ہیں۔

ہم اداروں میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور ہم شامل ہیں۔

اسی لیے آپ نے اس ہفتے ہماری ٹیم کو دوسرے ممالک سے بھرپور روابط قائم کرتے دیکھا جسے صدر بائیڈن نے 'انتھک سفارت کاری' کہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج دن کے اختتام تک میں دوطرفہ، علاقائی یا کثیرفریقی گروہوں کی صورت میں 60 سے زائد ممالک کے نمائندوں سے مل چکا ہوں گا جن میں جی20، پی5، آسیان، جی سی سی، سی5 اور وسطی امریکہ اور میکسیکو سے تعلق رکھنے والے میرے ہم منصب بھی شامل ہیں۔

اس ہفتے ان تمام سفارتی روابط اور کوششوں میں زیر بحث آنے والے دو مسائل سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔

ان میں پہلا مسئلہ کووڈ۔19 ہے۔

گزشتہ روز صدر کی بلائی گئی کانفرنس میں انہوں نے اس وباء کو ختم کرنے کے لیے امریکہ کی جانب سے نئے وعدوں کا اعلان کیا جن میں فائزر ویکسین کی مزید نصف بلین خوراکوں کی خریداری بھی شامل ہے۔ اس طرح امریکہ کی جانب سے عطیہ کی جانے والی محفوظ و موثر ویکسینوں کی خوراکوں کی تعداد 1.1 بلین تک پہنچ جائے گی جو دنیا بھر کے ممالک کو کسی شرط کے بغیر اور بلامعاوضہ مہیا کی جائیں گیں۔ عالمی برادری کو تین انتہائی اہم اہداف پر کام کرنے کی خاطر اکٹھا کرنے پر ہم پوری طرح یکسو ہیں۔

ان میں پہلا ہدف یہ ہے کہ ہمیں مزید اربوں لوگوں کو ویکسین لگانا ہے اور یہ کام جلد از جلد انجام دینا ہے۔ ہمیں یہ یقینی بنانے کے لیے کام کرنا ہے کہ 2022 کے آخر تک ہر ملک میں کم از کم 70 فیصد آبادی کو ویکیسن کی مکمل خوراکیں لگ جائیں اور اس میں آمدنی کی تمام سطحوں کے لوگ شامل ہوں۔

دوسرا ہدف یہ ہے کہ ہمیں بیماروں کے علاج کے لیے آکسیجن اور ادویات تک رسائی بڑھا کر اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے کووڈ ٹیسٹ کرنے کی راہ میں حائل بڑی بڑی رکاوٹوں کو دور کر کے زندگیاں بچانے کے لیے فوری طور پر جراتمندانہ اقدامات کرنا ہیں۔

تیسری بات یہ کہ ہمیں حفظان صحت کے عالمی شعبے میں خود کو بہتر انداز میں بحال کرنا ہے۔ ہمیں اس وباء کو ختم کر کے اور آئندہ کسی وبا کو روکنے، اس کی نشاندہی اور اسے شکست دینے کے لیے خود کو بہتر طور سے تیار کرنا ہے۔

اسی لیے ہم جو پیغام بھیجتے چلے آ رہے ہیں وہ واضح ہے کہ: یہ کہنا کافی نہیں کہ ہم اچھے اقدامات کریں گے۔ ہماری صحت، ہماری معیشتیں اور ہماری سلامتی یہ تقاضا کرتی ہیں کہ ہم اپنے وعدے پورے کریں اور اس وباء کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا لائحہ عمل بنائیں۔

ہم اس کوشش کو آگے بڑھانے کے لیے خود کو اور عالمی برادری کو اس کانفرنس میں کیے گئے وعدوں پر جواب دہ ٹھہراتے ہوئے آئندہ ہونے والے جی20 اجلاس سمیت ہر ایک موقع سے فائدہ اٹھائیں گے۔ اس سمت میں پیش رفت کی رفتار قائم رکھنے کے لیے صدر کی ہدایت پر میں اس سال کے اختتام سے پہلے کووڈ۔19 کے مسئلے پر وزرائے خارجہ کا ایک اجلاس بلاؤں گا۔ 2022 کے ابتدائی مہینوں میں صدر خود بھی اس وباء کے خاتمے کے موضوع پر حکومتی سربراہوں کے ایک اجلاس کی میزبانی کریں گے۔

موسمیاتی بحران دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔ اب 'سی او پی 26' میں چند ہی ہفتے باقی رہ گئے ہیں اور اگر ہم موسمیاتی تبدیلی کے شدید اثرات کو روکنا اور عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سنٹی گریڈ کی حد میں رکھنے کے لازمی ہدف تک رسائی چاہتے ہیں تو ہر ملک کو اپنے اعلیٰ ترین ممکنہ عزائم لے کر آگے آنا ہو گا۔ ہمارے پاس اس سمت میں پیش رفت کی راہیں موجود ہیں۔

مجھے آج صبح موسمیاتی امور اور سلامتی کے موضوع پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس میں شرکت کا موقع ملا جس میں خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی کے عالمی امن اور سلامتی پر گہرے اثرات کا اعتراف کرنے کی بابت گفت و شنید ہوئی۔ وباء کی طرح موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر بھی ہم اپنی مثال کی طاقت سے رہنمائی کر رہے ہیں جیسا کہ صدر بائیڈن کی جانب سے جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران کیے گئے اس وعدے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کانگریس کے تعاون سے ایسے ممالک کے لیے سرکاری سطح پر اپریل میں دگنا کی گئی اپنی مالی معاونت کو ایک بار پھر دگنا کر دے گا جو موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ اس اقدام سے انہیں خود کو شدید موسمی اثرات کے مطابق ڈھالنے میں مدد ملے گی۔

اس کے باوجود اگر وباء اور موسمیاتی تبدیلی دونوں کی بات کی جائے تو عالمی ردعمل اس قدر بھرپور نہیں جتنا کہ اسے ہونا چاہیے۔ یہاں اس ہفتے ہم یہی کوشش کرتے چلے آئے ہیں اور آنے والے دنوں اور ہفتوں میں اسی بات پر زور دینا جاری رکھیں گے۔

کچھ لوگ اس کا الزام اقوام متحدہ اور دیگر کثیرملکی اداروں پر عائد کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ تاہم جیسا کہ رچرڈ ہولبروک نے ایک مرتبہ کہا تھا، دنیا کے مسائل حل نہ ہونے کی ذمہ داری اقوام متحدہ پر ڈالنا ایسا ہی ہے جیسے "نِکس" اچھا نہ کھیل رہے ہوں تو اس کی ذمہ داری میڈیسن سکوائر گارڈن  پر ڈال دی جائے۔ اگر عالمی برداری دور حاضر کے مسائل پر قابو پانا چاہتی ہے ــ خواہ یہ کووڈ ہو، موسمیاتی تبدیلی ہو اور خواہ یہ ایسے بہت سے دیگر مسائل ہی کیوں نہ ہوں جن پر ہم اس ہفتے یہاں بات کر چکے ہیں ــ تو بالاخر بات یہاں پہنچے گی کہ آیا ہم جیسی حکومتیں آگے بڑھتی ہیں اور دوسرے ممالک کو اپنے ساتھ شامل کرتی ہیں یا نہیں۔ اسی وجہ سے امریکہ کے لیے سامنے آنا، دوسرے ممالک کو اپنے ساتھ شامل کرنا اور دنیا کی قیادت کرنا اس قدر اہم ہے۔

اس ہفتے کے دوران یقیناً ہمیں بہت سے دیگر اہم امور پر بات چیت کا موقع بھی ملا جن میں لبیا، برما، ایران کا جوہری پروگرام، شمالی کوریا، شام، ایتھوپیا، علاقائی مہاجرت اور بہت سے دیگر موضوعات شامل ہیں۔ یہ ایک لمبی فہرست ہے۔

یہاں اس بات کا تذکرہ اہم ہو گا کہ اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی ہفتے میں دفتر خارجہ کے ہر شعبے کو بہت سا کام کرنا ہوتا ہے۔ ہر اجلاس، ہر بیان اور ہر بریفنگ، منصوبہ بندی، تجزیے اور عملدرآمدی اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس کوشش میں شامل امریکی حکومت کے دوسرے حصوں کے ساتھ بھی قریبی رابطہ رکھنا ہوتا ہے۔ اس اجلاس میں اپنی شمولیت کے اختتام پر مجھے یہ کہنا ہے کہ ہماری ٹیم نے تسلسل سے سب کام کیے اور اس کے لیے میں ان لوگوں کا مشکور ہوں۔ اسی لیے میں اس ہفتے کو موثر بنانے اور ہر روز اپنے ہموطنوں کی خدمت کا ہر کام کرنے پر اپنی ٹیم کے ہر رکن کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

بات ختم کرنے سے پہلے مجھے خاص طور پر افغانستان کے بارے میں چند الفاظ کہنے کی اجازت دیجیے۔

گزشتہ رات سلامتی کونسل میں جی20 کے ساتھ اجلاس میں ہونے والی بات چیت اور متعدد دوطرفہ اور کثیرطرفی ملاقاتوں کا موضوع یہی تھا۔ ان اجلاسوں میں ہم نے اس بات کی اہمیت واضح کی کہ اس کام میں عالمی برادری کا متحدہ رہنا کس قدر اہم ہے۔ طالبان اپنی حکومت کو قانونی تسلیم کروانے کے خواہاں ہیں اور عالمی برادری کی حمایت چاہتے ہیں۔

عالمی برادری کے لیے ہمارا پیغام یہ ہے کہ طالبان کی حکومت کو قانونی تسلیم کرنے یا انہیں کسی بھی طرح کی مدد مہیا کرنے کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اہم معاملات میں کیے گئے اپنے وعدوں کو کس حد تک پورا کرتے ہیں اور ان تمام وعدوں اور شرائط کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی حالیہ قرارداد میں تفصیلی ذکر موجود ہے جو کچھ یوں ہیں:

غیرملکیوں اور افغان شہریوں کو، اگر وہ چاہیں تو، ملک سے باہر جانے کی اجازت دینا۔

دہشت گرد گروہوں کو افغانستان کی سرزمین کو بیرون  ملک ایسی کارروائیوں کے لیے استعمال کرنے سے روکنا جن سے دوسرے ممالک کو خطرہ ہو۔

بنیادی انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق کا احترام اور ان کے خلاف کسی بھی طرح کی انتقامی کارروائیوں سے اجتناب۔

انسانی امداد کو ملک میں بلارکاوٹ رسائی دینا۔

حقیقی معنوں میں ایک ایسی مشمولہ حکومت کی تشکیل جو عوام کی بنیادی ضروریات پوری کر سکے اور افغان عوام کی خواہشات کی عکاس ہو۔

یہ عالمی برادری کو دی جانے والی کوئی خصوصی رعایت نہیں ہے۔ یہ ایک مستحکم اور محفوظ افغانستان کی بنیادی ضرورت ہے۔ طالبان کو ان وعدوں کی پاسداری کے لیے جوابدہ ٹھہراتے ہوئے ہم دیگر حکومتوں، مالیاتی اداروں اور این جی اوز کے ساتھ کام کر کے افغانوں کے لیے انسانی امداد کی فراہمی آسان بنانے کے لیے کوشاں ہیں جن کی زندگیوں کا انحصار اسی امداد پر ہے۔

گو کہ یہ اعلٰی سطحی ہفتہ اختتام پذیر ہو رہا ہے مگر دنیا بھر میں وہ انتھک سفارت کاری بدستور جاری ہے جس کے بارے میں صدر نے اس وقت ذکر کیا تھا جب وہ یہاں اقوام متحدہ میں آئے تھے۔

آخری بات یہ ہے کہ آج مجھے اپنے فرانسیسی ہم منصب، جین ایوز لی ڈرین کے ساتھ ملاقات کرنے کا موقع ملا۔ ہمیں اس ہفتے، پی5، جی20 اور ہمارے جرمن اور اطالوی ہم مںصبوں کی جانب سے لبیا کے معاملے پر بلائے گئے اجلاس سمیت بہت سی جگہوں پر ایک دوسرے سے ملاقات کے مواقع میسر آئے۔ آج ہماری بات چیت میں گزشتہ روز صدر بائیڈن اور صدر میکراں کے درمیان ہونے والی گفت و شنید کو آگے بڑھایا گیا جس میں انہوں ںے اتفاق کیا تھا کہ اتحادیوں کے مابین کھلی بات چیت سے 15 ستمبر کو کیے جانے والے اعلان کے ضمن میں فائدہ ہوتا۔ دونوں نے  مستقبل میں تفصیلی صلاح مشوروں کے عمل پر اتفاق کیا۔ ہم جانتے ہیں کہ اس میں وقت لگے گا اور اس کے لیے سخت محنت درکار ہو گی اور اس کا اظہار الفاظ نہیں بلکہ عمل سے ہو گا۔ میں اس انتہائی اہم کوشش میں وزیر خارجہ لی ڈرین کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم رکھتا ہوں۔

ذاتی حوالے سے میں کہنا چاہوں گا کہ وہ اور میں طویل عرصے سے ایک دوسرے کے دوست چلے آ رہے ہیں اور وہ ایک ایسے شخص ہیں جن کا میں بے حد احترام کرتا ہوں۔

اب مجھے آپ کے سوالات کے جواب دے کر خوشی ہو گی۔

مسٹر پرائس: ہم سی این این کی نمائندہ کائلی ایٹ وُڈ کے سوال سے آغاز کریں گے۔

سوال: ہیلو۔

وزیر خارجہ بلنکن: ہیلو کائلی۔

سوال: جناب وزیر خارجہ، اس بات چیت کے اہتمام کا شکریہ۔ میں ہیٹی کے بارے میں ایک سوال سے اپنی بات شروع کرنا چاہتی ہوں۔ ہیٹی کے لیے خصوصی نمائندے ڈینیئل فوٹ نےآج صبح یا اس ہفتے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے اور انہوں نے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ہیٹی کے مہاجرین کو ملک بدر کرنے کے فیصلے کو 'غیرانسانی' اور ہیٹی سے متعلق امریکہ کی پالیسیوں کو 'انتہائی ناقص' قرار دیا ہے۔ مجھے یہ پوچھنا ہے کہ ان کا استعفیٰ قبول کرنے سے پہلے آپ کی ان سے کوئی بات ہوئی اور اگر یہ مدنظر رکھا جائے کہ امریکہ میں پناہ کی غرض سے آنے والے خاندانوں کے پاس یہاں قیام کے لیے کوئی قانونی بنیاد ہونا چاہیے تو ایسے میں کیا آپ ہیٹی سے آنے والے مہاجرین کو ملک بدر کرنے کے عمل کو انسانی سمجھتے ہیں۔

اس کے بعد زاویہ نظر کو وسیع کرتے ہوئے میرا ایک اور سوال ہے۔ حالیہ دنوں میں بائیڈن انتظامیہ کے خارجہ پالیسی سے متعلق متعدد امور سے نمٹنے کے انداز پر بہت زیادہ تنقید ہوئی ہے۔ ان میں افغانستان سے افراتفری کے عالم میں انخلا اور آسٹریلیا، امریکہ اور برطانیہ کے مابین نیا سکیورٹی معاہدہ جس نے فرانس کو غصہ دلایا، سرحدی بحران، ہیٹی سے آنے والے مہاجرین، اور ایران کے ساتھ معاہدے پر ادھورے مذاکرات نمایاں ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ انتظامیہ نے ان بہت سے امور پر بدانتظامی کا مظاہرہ کیا۔ آپ اس پر کیا کہیں گے؟

وزیر خارجہ بلنکن: شکریہ کائلی۔ ہیٹی کے معاملے سے شروع کرتے ہوئے سب سے پہلے میں یہ کہوں گا کہ میں ڈین فوٹ کی طویل خدمات پر ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے ہیٹی سے متعلق پالیسی پر ان کے امریکی انتظامیہ سے عدم اتفاق کے بارے میں سن لیا ہو گا تاہم مجھے یہ کہنا ہے کہ میں خصوصی نمائندے کے کردار اور اپنے کام کو جوش و جذبے سے معمور کرنے پر ان کی تعریف کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم ہیٹی کے عوام کی مدد اور ہیٹی کی جمہوریت کو مضبوط کرنے کی بنیادی ضرورت کے معاملے پر پوری طرح متفق ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہیٹی کے معاملے پر بہت سی اعلیٰ سطحی گفت و شنید ہوئی جس میں خصوصی نمائندے فوٹ کی پیش کردہ تجاویز سمیت تمام امکانات بھرپور اور شفاف انداز میں زیرغور آئے۔ حتمی طور پر، صدر کی کابینہ اور ان کے مشیروں کا کردار یہ ہوتا ہے کہ وہ صدر کو ممکنہ طور پر بہترین مشورہ دیں۔ ہم دوسروں کے خیالات کو نظرانداز نہیں کرتے، ہم ان کا جائزہ لیتے ہیں اور انہیں زیرغور لاتے ہیں۔ تاہم پالیسی کی بات ہو تو ہمارا ایک طریقہ کار ہے اور ہمارے معاملے میں یہ طریقہ کار جامعیت پر مبنی ہے۔ تاہم اس میں ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ صدر کو سفارشات پیش کرنے کے  ہمارے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی غرض سے کون سے خیالات موثر ثابت ہو سکتے ہیں جن کی بنیاد پر صدر فیصلہ کرتا ہے۔

ایسے حالات میں عدم اتفاق کا ابھرنا ایک ناگزیر عمل ہے۔ ہر موضوع پر لوگوں کے ایسے خیالات اور تصورات  ہوتے ہیں جن پر ان کا بھرپور یقین ہوتا ہے اور ہیٹی جیسے معاملے میں یہ بات اور بھی یقینی ہوتی ہے جس سے حقیقی جذبات جنم لیتے ہوں۔ امریکہ آنے کی کوشش کرنے والے ہیٹی کے مہاجرین میں پائی جانے والی مایوسی اور بے چینی اس سطح پر ہے جس سے ہم سب متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکتے۔ اسی لیے مجھے اس معاملے میں پائے جانے والے جذباتی پن اور ڈین کی جذباتی کیفیت کا اندازہ ہے۔

تاہم اسی وجہ سے ہم ذاتی اور ادارہ جاتی سطح، دونوں پر آج اور مستقبل میں ہیٹی کے لوگوں کی ہر ممکن مدد کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔ پورٹ او پرنس میں مشیل سیسن کی صورت میں ہماری ایک غیرمعمولی سفیر موجود ہیں۔ حال ہی میں معاون وزیر خارجہ برائے مغربی کرہ کے عہدے پر تقرری کی مںظوری حاصل کرنے والے برائن نکولس کی صورت میں بھی ہمارے پاس ایک اہم اور قابل شخصیت موجود ہے۔ وہ ہیٹی کا دورہ کرنے والے ہیں اور سفیر سیسن کے ساتھ مل کر ہیٹی کے حوالے سے ہمارے اقدامات کی قیادت کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے اور اس کی منتظم، پاور اور ان کی ٹیم نے بھی ہیٹی میں شاندار کام کیا ہے۔

لہذا یہ انتہائی توجہ کی حامل کوششیں ہیں۔ میں مزید کہوں گا کہ آپ ان میں سے بعض سوالات کا جواب لینے کے لیے ڈٰی ایچ ایس سمیت دیگر اداروں میں ہمارے ساتھیوں سے رجوع کریں۔ تاہم اس معاملے میں ہم نے افسوسناک باتوں میں سے ایک افسوناک بات یہ دیکھی ہے کہ بعض لوگ مختلف طریقوں سے اور مختلف جگہوں پر ہیٹی کے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ خواہ یہ ہیٹی میں رہنے والے لوگ ہوں یا دوسرے ممالک میں رہنے والے ہیٹی کے باشندے ہوں، انہیں بتایا جا رہا ہے کہ وہ عارضی حفاظتی درجے کے تحت امریکہ آ سکتے ہیں اور یہاں رہ سکتے ہیں۔ درحقیقت یہ درجہ ہیٹی سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کو حاصل ہے جو پہلے ہی چند ماہ سے امریکہ میں قیام پذیر ہیں۔

ایسی غلط اطلاعات کا پھیلاؤ انتہائی افسوسناک ہے کیونکہ یہ لوگوں کے انتہائی خطرناک سفر کرنے، اپنی زندگیوں کو خطرات میں ڈالنے، اُن کے خود کو کووڈ۔19 کے مزید خطرات میں ڈالنے کا باعث بن رہی ہیں۔ ان غلط معلومات کی بنیاد پر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ امریکہ آ سکتے ہیں اور یہاں رک سکتے ہیں۔ ہیٹی کے لوگوں کا خیال رکھنے کے علاوہ ہم یہ یقینی بنانے کی بہت کوشش کر رہے ہیں کہ ہیٹی کے لوگ سمجھیں کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔

جہاں تک آپ کا دوسرا وسیع تر سوال ہے تو دیکھیے ہم ایک دوسرے سے ہر اس مخصوص صورت حال کے بارے میں بات چیت کر سکتے ہیں جس کا آپ نے تذکرہ کیا ہے۔ تاہم اس ہفتے یہاں پر میں نے جو کچھ سنا ہے، خاص طور پر صدر کی تقریر کے بعد جن لوگوں سے میں نے صدر بائیڈن کے جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران پیش کیے جانے والے وژن کی اُن کی تعریف اور حمایت کے بارے میں بات کی تو بلا تفریق کم و بیش اُن سب کا تاثر زبردست تھا۔ اس وژن میں انہوں نے ایک ایسے امریکہ کی بات کی جو دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم رکھتا ہے، ایسا امریکہ جو یہ بات سمجھتا ہے کہ کوئی ایک ملک دورحاضر کے ان بڑے مسائل سے اکیلا نہیں نمٹ سکتا جن کا ہمارے لوگوں کو سامنا ہے اور جن کے بارے میں ہم نے بات کی ہے۔ ان میں کووڈ سے لے کر موسمیاتی تبدیلی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں کے تباہ کن اثرات تک بہت سے مسائل شامل ہیں۔ امریکہ سمیت ہم میں کوئی ایک بھی ملک ایسے کسی ایک مسئلے پر بھی اکیلا قابو نہیں پا سکتا اور ہم دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے اور سفارت کاری کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔ انہوں نے کووڈ۔19 اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے پر جو زور دیا اس کی بازگشت اس پورے ادارے میں سنائی دی۔ اسی طرح کثیرملکی نظام اور انسانی حقوق اور جمہوریت کے حق میں ان کی بات کو اور ہمیں یہ یاد کرانے کو بھی اتنی ہی پذیرائی ملی کہ اُس پورے نظام کا دل جس پر ہم نے اتفاق کیا ہے لوگ اور افراد ہیں نہ کہ قومیت کی بنیاد پر بننے والے ملک۔

دیکھیے جیسا کہ میں نے کہا، ہم ان مخصوص معاملات پر ایک دوسرے سے بات چیت کر سکتے ہیں تاہم میں نے آپ کو وہ بات بتائی ہے جو میں صدر کی تقریر اور اُس سمت کے ردعمل میں یہاں چند دنوں سے سنتا چلا آیا ہوں جس سمت میں وہ ہمیں لے کر جا رہے ہیں وہ امریکہ کے لیے انتہائی مثبت ہے۔

سوال: جناب وزیر خارجہ ۔۔۔

مسٹر پرائس: کائلی، ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ ویرونیک لی بِلن آپ بات کریں گی۔

سوال: میرا سوال لینے کا شکریہ۔ تو آپ نے بحران پر بات چیت کے لیے وزیر خارجہ لی ڈرین سے ملاقات کی۔ فرانس کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے، میں ان کے الفاظ بیان کرتی ہوں: بحران کا خاتمہ وقت لے گا اور اس کے لیے عملی اقدامات درکار ہوں گے۔ کیا آپ اس کی مزید وضاحت کر سکتے ہیں؟ میں معذرت چاہتی ہوں، آپ نے آنے والے دنوں میں دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات میں اٹھائے جانے والے کون سے مخصوص اقدمات پر تبادلہ خیال کیا؟

مجھے بھارت کے حوالے سے بھی ایک سوال پوچھنا ہے۔ کواڈ کا اجلاس کل ہو رہا ہے اور نریندر مودی اور ایمانویل میکراں نے چند روز پہلے آپس میں بات چیت کی ہے اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں ان دونوں ممالک کی  وسیع شراکت داری ہے۔ کیا آپ دونوں ممالک کے درمیان جوہری آبدوزوں کی تیاری اور خریدوفروخت کے حوالے سے اتحاد کا خیرمقدم کریں گے؟ شکریہ۔

وزیر خارجہ بلنکن: آپ کا شکریہ۔ مجھے ابتدا میں اس حوالے سے چند ضروری باتیں کہنا ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے کہا، ہم اب صدر میکراں اور صدر بائیڈن کی ہدایت پر مستقبل میں انتہائی عملی طور پر آگے بڑھنے کے لیے بہت سے امور پر تفصیلی مشاورت کے ایک عمل میں مصروف ہیں جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور روابط کو مضبوط کرنا ہے جو کئی سال سے اور کئی طرح سے پہلے ہی غیرمعمولی مضبوطی کے حامل ہیں لیکن ہم اس ضمن میں مزید بہت کچھ اور بہت بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہم بحر ہند و بحرالکاہل سے متعلق معاملات میں یورپی یونین کی شمولیت اور فرانس کی شمولیت کا بھرپور خیرمقدم کرتے ہیں اور یہ نکتہ خاص توجہ کا متقاضی ہے۔ چند روز پہلے بحر ہند و بحرالکاہل کے بارے میں یورپی یونین کی حکمت عملی ایسی ہے جس کی تیاری میں فرانس نے قائدانہ کردار ادا کیا ہے اور ہم اس کا نہایت ہی بھرپور طور سے خیرمقدم کرتے ہیں۔ ہم آنے والے مہینوں میں اپنی نظرثانی شدہ حکمت عملی بھی سامنے لائیں گے۔ یہ حکمت عملی یورپی یونین کی تیار کردہ حکمت عملی کی روشنی میں بنائی جا رہی ہے جس میں فرانس کا نہایت اہم کردار تھا۔ اس طرح جس جگہ ہم اپنے باہمی تعاون اور اشتراک کو مزید مضبوط بنانے کے متمنی ہیں وہ بحر ہند و بحرالکاہل ہے اور ہم کئی انداز میں یہ کام کر سکتے ہیں۔

اسی طرح ہم ساحل کے خطے کو دہشت گردی کے خلاف متحد کرنے کے لیے بھی ایک دوسرے کےساتھ غیرمعمولی طور پر قریبی تعاون کر رہے ہیں۔ چند ہی روز پہلے فرانس نے ایک سینیئر دہشت گرد رہنما کو ہلاک کیا جو دونوں ممالک کے لیے خطرہ تھا اور یہ اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے ایک نہایت اہم اور نمایاں اقدام تھا جو فرانس ساحل کے خطے میں ہماری سلامتی کے تحفظ کے لیے روزانہ کی بنیادوں پر کر رہا ہے اور جس میں اسے امریکہ کی بھرپور مدد اور تعاون حاصل ہے۔ ہم ساحل کے  خطے میں باہم مل کر مزید اقدامات کی راہیں تلاش کریں گے۔

 یقیناً ہم بحر اوقیانوس کے دونوں طرف سلامتی اور یورپی سلامتی کے بارے میں بھی بات کریں گے۔ ہم ایسی کوششوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں جن کے بارے میں فرانس بہت حساس ہے اور جن میں فرانس نے یورپی سلامتی اور دفاعی صلاحیت کو مضبوط بنانے اور جہاں ضروری تھا دفاعی بجٹ بڑہانے میں رہنمائی کی ہے۔ اور یہ کام یقینا نیٹو کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر کیا گیا ہے۔ یہ بالکل ٹھیک ہے اور ان صلاحیتوں میں مضبوطی آنا ہمارے اور یورپ کے بہترین مفاد میں ہے۔ ہم فرانس کے کام اور اس کے قائدانہ کردار کو بھی سراہتے ہیں جس کا مظاہرہ صدر میکراں نے ان کاوشوں میں کیا ہے۔ اس لیے بلاشبہ ہم ان چیزوں پر بھی بات کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کام پر بھی بات ہو گی جو ہم باہم مل کر دنیا کے ایسے دوسرے حصوں میں کرتے چلے آ رہے ہیں جہاں دونوں ممالک کے مضبوط مشترکہ مفادات ہیں۔

میں مستقبل کی بابت کسی طرح کے مخصوص مفروضوں پر نہیں کروں گا تاہم مجھے یہ کہنے دیجیے کہ بھارت کے ساتھ اپنی متعلقہ شراکتوں کو مزید مضبوط بنانے سے فرانس اور امریکہ دونوں کا بہترین مفاد وابستہ ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی ہم بھرپور حمایت کرتے ہیں۔

مسٹر پرائس: شان ٹنڈن، اے ایف پی

سوال: جنابِ وزیر خارجہ آپ کا شکریہ۔ کیا میں آپ سے ایران کے بارے میں پوچھ سکتا ہوں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں ان کے نئے وزیر خارجہ امیر عبداللھیان یہاں موجود تھے۔ یقیناً آپ نے ان سے ملاقات نہیں کی تاہم ان سے ملنے والے یورپی وزرائے خارجہ کی باتوں سے آپ اس بارے میں کیا اندازہ لگاتے ہیں کہ ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات جاری رکھنے اور جے سی پی او اے کے احیاء کا کوئی راستہ موجود ہے؟ آپ کے خیال میں کس مرحلے پر اس کا وقت ختم ہو جائے گا؟

اگر میں قبل ازیں افغانستان کے بارے میں آپ کی بات کی وضاحت چاہوں تو مجھے یہ پوچھنا ہے کہ آپ کا کہنا تھا کہ آپ نے طالبان کو اس وقت تک قانونی حیثیت نہ دینے کی متفقہ کوشش کی ہے جب تک اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوتی۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس معاملے میں دنیا آپ کی ہمخیال ہے جس میں چین، پاکستان جیسے ممالک اور پی5 کے تمام ممالک بھی شامل ہیں؟ آپ کا شکریہ۔

وزیر خارجہ بلنکن: شکریہ۔ پہلے میں ایران کے بارے میں چند باتیں بتا دوں۔ ایران کے لیے ہمارے خصوصی نمائندے راب میلی بھی اس پورے ہفتے میں یہاں موجود تھے۔ انہوں نے نیویارک میں چند نہایت مفید دن گزارے اور اب وہ واشنگٹن واپس جا چکے ہیں۔ ہمارا اس وقت ایران کے ساتھ اس کی ویانا بات چیت میں واپسی کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ ہم یہ بات چیت جاری رکھنے کے لیے ویانا واپسی کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور سوال یہ ہے کہ آیا ایران اس کے لیے تیار ہوتا ہے اور اگر ہوتا ہے تو کب۔ ہم جے سی پی او اے کی دوطرفہ تعمیل کی جانب واپسی اور ایران سے متعلق اپنے اور بہت سے دیگر ممالک کے تمام خدشات سے نمٹنے کے لیے بامعنی سفارت کاری کی راہ تلاش کرنے میں نہایت مخلص اور ثابت قدم ہیں۔ ہم اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اس معاہدے پر دوطرفہ عملدرآمد ہمارے مفاد میں ہے۔ یہ ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے اور اس کی عدم استحکام پیدا کرنے والی دیگر سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرنے کا بہترین دستیاب طریقہ ہے۔

تاہم جیسا کہ میں نے حال ہی میں چند مواقع پر کہا ہے کہ جوہری معاہدے پر دوطرفہ عملدرآمد کی جانب واپسی کا امکان غیرمعینہ نہیں ہے۔ اس وقت ہمیں درپیش مسئلہ یہ ہے کہ ایران ایسے اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے جو اس معاہدے سے مطابقت نہیں رکھتے جن میں اعلٰی درجے کے افزودہ یورینیم کے ذخیروں میں 20 فیصد حتیٰ کہ 60 فیصد تک اضافے اور تیز رفتار سینٹری فیوجز کا استعمال بھی شامل ہے۔ لہذا مستقبل میں ہم ایک ایسے مقام پر پہنچ جائیں گے جہاں جے سی پی او اے پر دوطرفہ عملدرآمد سے اس معاہدے کے فوائد دوبارہ حاصل نہیں ہو پائیں گے کیونکہ ایران نے اپنے پروگرام میں اتنی زیادہ پیش رفت کر لی ہوگی کہ محض جے سی پی او اے کی شرائط کی طرف لوٹنے سے پروگرام کی پیش رفت کو ختم نہیں کیا جا سکے گا۔

اس لیے یہ ایک ایسی چیز ہے جو ہمارے اتحادی اور شراکت دار بھی جانتے ہیں اور اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا ایران اس بات چیت کی جانب واپسی اور اس میں بامعنی طور سے شرکت کے لیے تیار ہے یا نہیں۔ ہم اس سوال کے جواب کے منتظر ہیں۔

میں معذرت چاہتا ہوں، آپ کے سوال کا دوسرا حصہ کیا تھا؟

سوال: افغانستان (ناقابل سماعت)

وزیر خارجہ بلنکن: اوہ، ٹھیک ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے طریقہ کار اور مقصد پر بھرپور اتفاق پایا جاتا ہے۔ یقیناً یہ بات صرف میں نہیں کہہ رہا بلکہ اس کا اظہار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد سے بھی ہوتا ہے جو چند ہی ہفتے پہلے 30 اگست کو منظور کی گئی ہے۔ یہ قرارداد طالبان کے مستقبل کے طرزعمل کی بابت سلامتی کونسل کی توقعات کو پوری طرح واضح کرتی ہے۔ اس میں سفر کی آزادی، افغانستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکنے کے وعدوں کی پاسداری، خواتین، لڑکیوں اور اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کا احترام، امدادی اداروں اور کارکنوں کا تحفظ اور انہیں ملک میں رسائی دینا اور تمام سیاسی فریقین کی نمائندہ حکومت کا قیام شامل ہے۔ سلامتی کونسل کی قرارداد میں یہی باتیں کی گئی ہیں۔

اس سے ہٹ کر سو سے زیادہ ممالک نے واضح طور پر طالبان سے انہی توقعات کا اظہار کیا ہے۔ درحقیقت ان تمام بات چیتوں میں جو میں نے افراد یا سلامتی کونسل سمیت ملکوں کے مختلف گروپوں سے کیں ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ بین الاقوامی برادری طالبان کی طرف سے ان وعدوں کے پورا کیے جانے کی منتظر ہے۔ اور یہ بات بہت واضح ہے۔

اس لیے ہم دیکھیں گے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ طالبان کہتے ہیں کہ ان کی حکومت کو جائز اور قانونی تسلیم کیا جائے اور وہ عالمی برادری سے حمایت کے خواہاں ہیں۔ تاہم ان کے عالمی برداری سے تعلق کا انحصار ان کی طرف سے اٹھائے جانے والے عملی اقدامات پر ہے۔ ہم اسی کے منتظر ہیں۔ ایک بار پھر کہوں کہ یہ ہم اکیلے نہیں کہہ رہے۔ یہ سلامتی کونسل اور دنیا بھر کے ممالک کہہ رہے ہیں۔

 مسٹر پرائس: اب ہم باربرا اشر کا سوال لیں گے۔

سوال: ہیلو مسٹر بلنکن، مجھے اپنے ساتھیوں کے چند سوالات کو ہی آگے بڑھانا ہے۔

فرانس کے وزیر خارجہ سے بات چیت کے حوالے سے، کیا اب آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بحران، اگر آپ اسے بحران کہیں تو، ختم ہو گیا ہے؟ اور کیا آپ نے ان سے معافی مانگی؟

ہیٹی کے حوالے سے آپ نے کہا کہ مسٹر فوٹ کے جذبات قابل فہم تھے۔ تاہم جو پیغام یا بیان سامنے آیا ہے اس سے یہ دکھائی دیتا ہے کہ انہوں نے جو تجاویز پیش کی تھیں وہ اچھی نہ تھیں اور یہ کہ یہ ہیٹی میں جمہوریت کے فروغ کے لیے نقصان دہ تھیں اور اس بیان میں بنیادی طور پر یہ کہا گیا کہ انہوں نے اپنے استعفے کے حالات کو غلط طور پر بیان کیا۔ میرے خیال میں درحقیقت یہ ایک تند الفاظ پر مشتمل بیان تھا۔ میرے ذہن میں آ رہا ہے کہ کیا انہیں یا تو ایک قسم کی رکاوٹ کے طور پر دیکھا گیا یا اگر میں یہ کہہ سکوں کہ اُن کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ میرا مطلب ہے  کیا آپ اس بیان کا سیاق و سباق بتا سکتے ہیں؟ شکریہ

وزیر خارجہ بلنکن: میں آپ کے سوال کے دوسرے حصے کا جواب پہلے دینا چاہوں گا۔

دیکھیے، جیسا کہ میں ںے کچھ دیر پہلے کہا کہ خصوصی نمائندے فوٹ نے بہت سی حیثیتوں میں ملک کے لیے غیرمعمولی خدمات انجام دی ہیں۔ میں اس جذبے کا بے حد احترام اور اس کی ستائش کرتا ہوں جس کا مظاہرہ انہوں نے اپنے اس تازہ ترین کردار میں کیا۔ تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے جو مخصوص پالیسی یا طریقہ کار تجویز کیا تھا یا جس کی حمایت کی تھی وہ درست ہو یا ہم ہر پالیسی کے جائزے کے لیے جو طریقہ کار اختیار کرتے ہیں اس کے بارے میں پہلے سے طے تھا کہ اُن کی طرف سے یا کسی اور کی طرف سے پیش کی جانے والی پالیسی کے ساتھ وہی کچھ ہونا تھا جو ہوا۔ اس لیے میں ایک مرتبہ پھر کہوں گا کہ میں ان کا، ان کی خدمات کا اور ان کے جذبات کا احترام کرتا ہوں، بے حد احترام کرتا ہوں۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کوئی درست راہ اختیار کرنے کے لیے کسی طریقہ کار سے اختلاف نہیں کر سکتے اور نہیں کریں گے۔ لہذا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اب اس حیثیت سے اطمینان بخش طریقے سے خدمات انجام  نہیں دے سکتے۔ اور میں اُن کے فیصلے کا احترام کرتا ہوں۔

جہاں تک فرانس اور میرے ساتھی لی ڈرین کی بات ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ کچھ دیر پہلے میں نے اس بارے میں جو کچھ کہا وہی ہماری پالیسی ہے۔ ہم نے ایک طریقہ کار طے کیا ہے جس پر صدر میکراں اور صدر بائیڈن کا اتفاق ہے اور اس کے تحت آگے بڑھنے کے لیے تفصیلی مشاورت کی جائے گی۔ ہمارا ماننا ہے کہ اس کے لیے وقت درکار ہو گا، اس کے لیے سخت محنت درکار ہوگی اور ہمیں نہ صرف زبانی بلکہ مشترکہ عملی اقدامات میں بھی نتائج دینا ہوں گے۔ میں اس پر پوری طرح قائم ہوں۔ میں آنے والے دنوں اور ہفتوں میں جین ایوز کے ساتھ قریبی طور پر مل کر کام کروں گا اور مجھے یقین ہے کہ ہمارے مشترکہ مفادات اس قدر مضبوط ہیں اور ہماری مشترکہ اقدار اس قدر مستحکم ہیں کہ ہم آگے بڑھیں گے اور اچھا کام کریں گے۔ تاہم اس میں کچھ وقت لگے گا اور اس کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہوگی۔ اور جیسا کہ میں نے کہا، میں یہ سب کچھ کرنے کا مصمم ارادہ رکھتا ہوں۔

مسٹر پرائس: شکریہ جناب وزیر خارجہ، سبھی کا بہت شکریہ۔

وزیر خارجہ بلنکن: آپ سبھی کا بہت شکریہ، نیویارک سے لطف اندوز ہوں۔


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/secretary-antony-j-blinken-at-a-press-availability-7/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔


This email was sent to stevenmagallanes520.nims@blogger.com using GovDelivery Communications Cloud on behalf of: Department of State Office of International Media Engagement · 2201 C Street, NW · Washington, DC · 20520 GovDelivery logo

No comments:

Page List

Blog Archive

Search This Blog

U.S. Department of Justice Attorney Vacancies Update

You are subscribed to Attorney Vacancies for U.S. Department of Justice. This information has recently been up...