Friday, January 29, 2021

وزیر خارجہ اینتھنی جے بلنکن کی پریس کانفرنس

Department of State United States of America

یہ ترجمہ امریکی دفترخارجہ کی جانب سے ازراہ نوازش پیش کیا جارہا ہے۔


برائے فوری اجرا


امریکی دفتر خارجہ
دفتر برائے ترجمان
برائے فوری اجراء
میڈیا سے بات چیت
27 جنوری 2021
پریس بریفنگ روم
واشنگٹن ڈی سی

سہ پہر بخیر۔ اپنے بریفنگ روم میں واپسی پر خوش آمدید۔ ہم جلد ہی کچھ وقت اکٹھے گزاریں گے اور میں اس کا بہت متمنی ہوں۔ تاہم آج، سب سے پہلے، مجھے اس کمرے میں پہلی مرتبہ 71ویں وزیر خارجہ جناب ٹونی بلنکن کو متعارف کرانے کا اعزاز حاص ہوا ہے۔ چنانچہ مزید بکھیڑے کے بغیر میں انہیں گفتگو کی دعوت دیتا ہوں۔

وزیر خارجہ بلنکن: شکریہ۔ سہ پہر بخیر۔ میں یہ کہتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کرنا چاہوں گا کہ ایسے شخص کے طور پر جانے جانا میری پہلی خواہش ہے جو نیڈ پرائس کو دفتر خارجہ کے بریفنگ روم میں لایا۔ اور کم از کم یہ کام مکمل ہوا۔

سوال: (مائیک کے بغیر)

وزیر خارجہ بلنکن: جی، پوری سنجیدگی سے، آج یہاں میرے ساتھ موجودگی پر سبھی کا شکریہ۔ یہ وزیر خارجہ کے عہدے پر میرا پہلا مکمل دن ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا، اس عہدے پر ہونا میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے اور مجھے خوشی ہے کہ صدر نے مجھے اس ذمہ داری کے قابل سمجھا۔ میں اپنے آئندہ کام خاص طور پر امریکہ کے عوام کی خدمات اور اپنے ملک کی دنیا میں نمائندگی کی کوشش میں دفتر خارجہ کے مردوخواتین کے ساتھ کام کے حوالے سے بے حد پرجوش ہوں۔

میں آج آغاز سے ہی یہ واضح کرنے کے لیے آپ کے ساتھ چند منٹ صرف کرنا چاہتا ہوں کہ میں آپ میں سے ہر ایک کے کام کو کیسے اہم سمجھتا ہوں۔ آپ میں سے بعض لوگ شاید جانتے ہوں کہ میں نے صحافی کی حیثیت سے کیریئر شروع کیا تھا۔ یقیناً میں اس میں کامیاب نہیں رہا، مگر یہ ایک ایسی چیز تھی جس پر میں نے بے حد فخر اور خوشی محسوس کی ہے اور اپنی موجودہ ذمہ داری کی دونوں اطراف اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر میں اس شعبے کا بے حد احترام کرتا ہوں۔ ہم یہاں جو کچھ کرتے ہیں آپ اس سے امریکہ کے عوام اور دنیا کو باخبر رکھتے ہیں۔ یہ بات ہمارے مقصد کے لیے بھی اہم ہے۔ آپ ہمیں جوابدہ بناتے ہیں، سخت سوالات پوچھتے ہیں اور اس سے واقعتاً ہماری کارکردگی میں بہتری آتی ہے۔

اگر مزید کھل کر کہا جائے ۔۔ اور اس بات کا دوبارہ بیان کبھی اس قدر اہم نہیں تھا جتنا کہ اب ہے – آزاد صحافت ہماری جمہوریت کی بنیاد ہے۔ یہ اندرون ملک بھی جمہوریت کے تحفظ اور اس کے دفاع کا ایک اہم لمحہ ہے۔

چنانچہ یہاں آپ میری اور ہماری باتوں پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔ ہم اگلے ہفتے سے روزانہ میڈیا کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔

مسٹر پرائس: منگل۔

وزیر خارجہ بلنکن: منگل کو۔ یہ دن کا ایک اہم حصہ ہے اور ہم اسے واپس لا رہے ہیں۔ صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ وائٹ ہاؤس کے بریفنگ روم میں سچائی اور شفافیت کو واپس لانا چاہتے ہیں۔ اس بات کا اس کمرے پر بھی پوری طرح اطلاق ہوتا ہے۔ آپ مجھے قدرے تیزرفتار بھی دیکھیں گے۔ اس میں ہمارے اکٹھے دورے  بھی شامل ہیں جب امید ہے کہ ہم دوبارہ ان دوروں پر جائیں گے جیسا کہ آپ کو یہاں بہت سے پالیسی ماہرین کی زبانی سننے کا موقع ملے گا۔

میں جانتا ہوں کہ ہم ہمیشہ روبرو نہیں ہوں گے۔ یہ اس بڑے کام میں اہم بات نہیں ہے۔ کبھی ہمیں آپ پر جھنجھلاہٹ ہو گی۔ میرے خیال میں ایسے چند ہی مواقع ہوں گے جب آپ کو ہم پر جھنجھلاہٹ ہو گی۔ تاہم اس کی توقع رکھی جانی چاہیے۔ کئی انداز میں یہ ایک اہم بات بھی ہے۔ مگر آپ مجھ پر اعتبار کر سکتے ہیں، آپ ہم پر اعتبار کر سکتے ہیں کہ آپ سبھی سے اسے بے پایاں احترام پر مبنی سلوک کیا جائے گا جس کے آپ حقدار ہیں اور آپ کو اپنے کام کے لیے درکار ہر سہولت مہیا کی جائے گی کہ یہ کام ہمارے ملک اور ہماری جمہوریت کے لیے بے حد اہم ہے۔ میں سیدھی بات کروں گا خواہ میں یہاں کھڑا ہوں، جہاز پر ہوں یا پرامید طور سے بالاآخر دنیا کے کسی دوردراز حصے میں ہی کیوں نہ ہوں۔

چنانچہ یہ ایک ایسی مہم ہے جس میں ہمارا ایک ساتھ ہونا میرے لیے واقعتاً خوشی کی بات ہے۔ لہٰذا پریس روم میں خوش آمدید۔ جیسا کہ نیڈ نے کہا، یہ آپ کا پریس روم ہے۔ اس کے ساتھ ہی مجھے چند سوالات لینے کی اجازت دیجیے۔

مسٹر پرائس: ہم اے پی سے آغاز کریں گے، میٹ لی۔

سوال: شکریہ۔ جناب وزیر خارجہ، یہاں واپسی پر خوش آمدید۔

وزیر خارجہ: شکریہ۔

سوال: کچھ ہی دیر پہلے آپ نے ہمارے پیشے کے بارے میں جو اچھے الفاظ کہے اس پر آپ کا شکریہ۔ میں اپنی بات ہر ممکن طور پر مختصر رکھنے کی کوشش کروں گا: گزشتہ انتظامیہ کے آخری چند مہینوں میں متعدد ایسی پالیسیاں لائی گئیں اور نافذ کی گئیں جنہیں نرم ترین الفاظ میں متنازع کہا جا سکتا ہے، یا ان پر تنقید ہوئی۔ مجھے اندازہ ہے کہ ابھی آپ کو یہاں آئے 24 گھنٹے بھی نہیں گزرے اور اس وقت بہت سی چیزیں، قریباً ہر چیز کا ازسرنو جائزہ لیا جا رہا ہے۔ مجھے یہ جاننا ہے کہ گزشتہ کئی مہینوں میں نافذ ہونے والی وہ کون سی پالیسیاں ہیں جن کا آپ نے ترجیحی طور پر جائزہ لینا ہے تاکہ ممکنہ طور پر ان کا رخ واپس پھیرا جائے، منسوخ کیا جائے یا انہیں واپس لیا جائے؟

اسی طرح یہاں دفتر خارجہ میں پالیسی سے ہٹ کر عملے کے حوالے سے اگر آپ کسی طرح کی تبدیلیوں کا ارادہ رکھتے ہیں تو وہ کیا ہیں۔ آپ خارجہ ملازمت اور یہاں کام کرنے والے لوگوں کے بارے میں سابق انتظامیہ کے طریقہ کار میں کون سی تبدیلی کے خواہاں ہیں۔

وزیر خارجہ بلنکن: شکریہ۔ جی، آپ نے درست کہا، ہم گزشتہ انتظامیہ کے متعدد اقدامات کا ازسرنو جائزہ لے رہے ہیں۔ ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہمیں ہر معاملے میں لیے گئے فیصلوں کی بنیاد سے آگاہی ہو۔

میں آپ کو بتاؤں گا کہ حوثیوں پر عائد کی گئی پابندیوں کے معاملے پر میری خاص توجہ ہے۔ میرے خیال میں آپ سبھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ چند سال پہلے حوثیوں نے صنعا پر قبضہ کر کے واضح جارحیت کا ارتکاب کیا، پورے میں کارروائیاں کیں، ہمارے شراکت دار سعودی عرب کے خلاف جارحانہ اقدامات کیے، انسانی حقوق پامال کیے اور دوسرے مظالم کا ارتکاب کرتے ہوئے ایسا ماحول بنایا جس میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ اس صورتحال میں پیدا ہونے والے بعض خلا انتہاپسند گروہوں نے پُر کیے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ ہم نے سعودی عرب کی قیادت میں ایک مہم دیکھی اور اس نے بھی آج کی دنیا میں ایک بدترین انسانی بحران کو جنم دینے میں کردار ادا کیا۔

لہٰذا اس بحران کے ہوتے ہوئے بھی یہ ناگزیر طور پر اہم بات ہے کہ ہم یمن کے لوگوں کو انسانی امداد مہیا کرنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائیں جس کی انہیں اشد ضرورت ہے۔ ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہم جو بھی قدم اٹھائیں ان سے اس امداد کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔

حوثیوں کا یمن میں زمینی تسلط ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ 80 فیصد ملکی آبادی ان کے زیر قبضہ علاقوں میں رہتی ہے۔ اسی لیے ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ پابندیوں کے لیے نامزدگی سمیت کوئی بھی اقدام یمن کے لوگوں کو انسانی امداد پہنچانے کے پہلے سے ہی غیرمعمولی طور سے مشکل کام کو مزید مشکل نہ بنا دے۔ چنانچہ ہم اس معاملے کو فوری توجہ اور قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ناصرف ہمارے امریکی امدادی گروہ امداد کی فراہمی کا کام کر سکیں بلکہ دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے امدادی گروہوں کے لیے بھی ایسا کرنا ممکن ہو جو بڑی مقدار میں امداد وہاں پہنچا رہے ہیں۔ اس طرح ہمیں یہ یقینی بنانا ہے کہ ہم جو کچھ کریں اس سے امدادی کام کی روانی میں کوئی خلل نہ پڑے، خاص طور پر کوئی ایسا اقدام جس سے ہماری پالیسی اور مقاصد کو آگے بڑھانے میں مدد نہ ملتی ہو۔

مسٹر پرائس: اینڈریا مچل۔

سوال: آپ کا بہت شکریہ۔ جناب وزیر خارجہ، آپ کو مبارک ہو۔

وزیر خارجہ بلنکن: اینڈریا آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔

سوال: صدر بائیڈن نے اپنی پہلی فون کال گزشتہ روز صدر پوٹن کو کی جس میں انہوں نے ضبط اسلحہ کے معاہدے، نیو سٹارٹ کو توسیع دینے جیسے چند معاملات پر اتفاق پیدا کرنے پر گفت وشنید کی جن میں روس شامل ہے۔ یقیناً ہم سولرونڈز ہیک کرنے کے معاملے اور یوکرائن، 2020 کی انتخابی مہم میں مداخلت کی تفتیش اور تخمینہ کاری اور اس کے ساتھ الیکسی نیولنی کے تحفظ کی بات کر رہے ہیں۔

وزیر خارجہ بلنکن: جی

سوال: چنانچہ میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ مسٹر نیولنی کو کسی طرح کا نقصان پہنچنے یا احتجاج کرنے والوں کی گرفتاری کے حوالے سے ایسی کون سی سرخ لکیریں ہیں جنہیں عبور کرنے پر امریکہ روس پر پابندیاں عائد کرنے کا سوچے گا؟ حزب اختلاف اور انسانی حقوق کے خلاف روس کی کارروائی کا معاملہ آپ کے لیے کتنا اہم ہے؟

وزیر خارجہ بلنکن: جی، شکریہ اینڈریا۔ جیسا کہ آپ جانتی ہیں ہم نے پہلے ہی مسٹر نیولنی سے ہونے والےسلوک پر خاص طور سے اور مزید عمومی طور پر روس میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور یہ بات میرے لیے بدستور غیرمعمولی اہمیت رکھتی ہے کہ روسی حکومت ایک شخص مسٹر نیولنی کے حوالے سے کس قدر تشویش یا شاید خوف کا شکار ہے۔

جیسا کہ صدر نے کہا ہم بلاتخصیص ان تمام اقدامات کا جائزہ لے رہے ہیں جو ہمارے لیے گہری تشویش کے حامل ہیں خواہ یہ مسٹر نیولنی سے ہونے والا سلوک اور خاص طور پر انہیں قتل کرنے کے لیے بظاہر کیمیائی ہتھیار کا استعمال ہو۔ ہم سولرونڈز کے معاملے اور اس کے بہت سے اثرات پر بھی فوری توجہ دے رہے ہیں۔ روس کی جانب سے افغانستان میں امریکی فورسز کی ہلاکتوں پر انعام رکھے جانے کی اطلاعات پر بھی ہماری نظر ہے، اور یقیناً ہم انتخابات میں مداخلت کے معاملات کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ چنانچہ جیسا کہ صدر نے کہا اور وائٹ ہاؤس نے نشاندہی کی ہے، ہم ان معاملات کا جائزہ لے رہے ہیں اور اس مرحلے پر میں پیشگی کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔

تاہم جیسا کہ میں نے کہا، ہمیں مسٹر نیولنی کی حفاظت اور سلامتی پر گہری تشویش ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کی آواز بہت سے روسیوں کی آواز ہے اور اسے خاموش کرانے کے بجائے سنا جانا چاہیے۔

سوال: کیا آپ انہیں پہنچنے والے نقصان کے حوالے سے کسی بھی بات کو مسترد نہیں کر رہے؟

وزیر خارجہ بلنکن: میں کسی بات کو مسترد نہیں کر رہا۔ لیکن ہم اس کا مکمل جائزہ لینا چاہتے ہیں اور تبھی کوئی قدم اٹھائیں گے۔

مسٹر پرائس: اب ہم اے ایف پی کے شان ٹینڈن سے بات کریں گے۔

سوال: شکریہ جناب وزیر خارجہ۔ یہاں نمائندگان کی ایسوسی ایشن کے سربراہ کی حیثیت سے میں آپ کو عہدے کے اس پہلے دن مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ یہ ایک واضح اشارہ ہے اور ہم نے اسے محسوس کیا ہے۔

اس عہدے کے لیے توثیقی سماعت کے موقع پر آپ نے گزشتہ انتظامیہ کے ابراہم معاہدوں کی حمایت کی بات کی تھی۔ اس حوالے سے مجھے آپ کی انتظامیہ کے چند ممکنہ فیصلوں کی بابت پوچھنا تھا۔ میرے خیال میں اس وقت ہتھیاروں کی فروخت، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو ایف35 طیاروں کی فروخت کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ آپ ان معاہدوں کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟ کیا آپ متحدہ عرب امارات کو ایف 35 کی فروخت جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مراکش کی بات ہو تو کیا امریکہ بدستور گزشتہ امریکی انتظامیہ کی طرح مغربی صحارا پر مراکش کی خودمختاری کو تسلیم کرتا ہے؟ شکریہ۔

وزیر خارجہ بلنکن: شکریہ۔ بہت شکریہ۔ اس پر میں کچھ باتیں کہوں گا۔ پہلی یہ کہ جیسا ہم نے کہا، ہم ابراہم معاہدوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کے اپنے ہمسایوں اور خطے میں دوسرے ممالک کے ساتھ معمول کے تعلقات کا قیام ایک نہایت مثبت پیش رفت ہے اور اسی لیے ہم انہیں سراہتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آنے والے مہینوں اور برسوں میں انہیں مزید آگے بڑھانے کا موقع میسر آئے گا۔

ہم یہ یقینی بنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں کہ ہمیں ان معاہدوں پر پہنچنے کے لیے کیے گئے وعدوں سے متعلق مکمل آگاہی ہو اور اس وقت ہم اسی چیز کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر عمومی طور پر بات کی جائے تو جب اسلحے کی فروخت کی بات ہو تو کسی بھی نئی حکومت کے آغاز پر سابقہ حکومت کی بقیہ فروخت کا جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جائے کہ جو کچھ زیرغور لایا جا رہا ہے اس سے ہمارے تزویراتی مقاصد کو آگے بڑھانے اور ہماری خارجہ پالیسی کو ترقی دینے میں مدد ملے گی۔ لہٰذا اس وقت ہم یہی کچھ کر رہے ہیں۔

نگران: اب ہم جان ہڈسن سے بات کریں گے۔

سوال: مراکش؟

سوال: شکریہ۔ جناب وزیر خارجہ، افغانستان پر جائزے کے دوران آپ کیا دیکھ رہے ہیں اور کیا آپ سفیر خلیل زاد کو امریکی نمائندے کے طور پر برقرار رکھیں گے؟

وزیر خارجہ بلنکن: افغانستان کے حوالے سے ہمیں جو باتیں سمجھنے کی ضرورت ہے ان میں ایک یہ ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے دراصل کیا تھے۔ یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ ہمیں طالبان اور امریکہ کی جانب سے کیے گئے وعدوں کا مکمل ادراک ہو۔ اسی لیے ہم یہ کام کر رہے ہیں۔ جہاں تک سفیر خلیل زاد کا معاملہ ہے تو ہم نے انہیں اپنا اہم کام جاری رکھنے کو کہا ہے۔

نگران: وی او اے کے نِک چنِگ۔

سوال: آپ کا بہت شکریہ۔ جناب وزیر خارجہ سہ پہر بخیر۔ آپ کیسے ہیں؟

وزیر خارجہ بلنکن: میں ٹھیک ہوں، شکریہ۔

سوال: اگر اجازت ہو ــ اچھا۔ اگر اجازت ہو، چین پر، کیسے ــ جب آپ کہتے ہیں کہ چین نسل کشی میں ملوث ہے تو پھر آپ ماحولیاتی تبدیلی کے معاملے پر چین کے ساتھ کیسے تعاون کریں گے؟ اس سے ہٹ کر مجھے یہ پوچھنا ہے کہ کرٹ کیمبل نے اعتماد کی بحالی کے لیے چند اقدامات کا تذکرہ کیا ہے جیسا کہ صحافیوں کے لیے ویزا کی پابندیوں میں نرمی کرنا اور قونصل خانے بند کرنے کا اقدام واپس لینا۔ کیا ایسا ہی ہو رہا ہے؟ شکریہ۔

وزیر خارجہ بلنکن: آپ کا بہت شکریہ۔ ہمیں حال ہی میں اس پر بات کرنے کا موقع ملا تھا ــ حالیہ ہفتوں اور حالیہ مہینوں میں۔ میں سمجھتا ہوں کہ، یہ کوئی راز نہیں ہے کہ امریکہ اور چین کے مابین تعلقات ممکنہ طور پر مستقبل کی دنیا میں ہمارا سب سے اہم تعلق ہے۔ ہمارا مستقبل بڑی حد تک اسی تعلق پر تشکیل پانا ہے اور افزوں طور سے اس تعلق کے بعض معاندانہ پہلو بھی ہیں۔ یہ اس کے مسابقتی پہلو ہیں۔ علاوہ ازیں اس کے ساجھے پہلو بھی ہیں۔ یہ ساجھے پہلو ان شعبوں میں ہیں جہاں مل کر کرم کرنے کی کوشش کرنا ہمارے باہمی مفاد میں ہے۔ اس میں اعلانیہ طور پر ماحولیاتی معاملہ بھی شامل ہے جہاں عالمی حدت سے نمٹنے کے لیے ٹھوس پیش رفت چین، امریکہ اور دنیا بھر کے ممالک کے مفاد میں ہے۔ اسی لیے میں یہ سمجھتا اور امید کرتا ہوں کہ ہم اس کے حصول میں کامیاب رہیں گے۔

تاہم یہ ہماری خارجہ پالیسی کے وسیع تناظر اور چین کے ساتھ تشویش کے حامل بہت سے امور کا حصہ ہے، ایسے امور جن پر ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک اور پورے کرہ ارض کے مستقبل کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ماحولیاتی ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے بھی آپ ہمیں یہی کچھ کرتا دیکھیں گے۔

نگران: اب آخری سوال کا وقت ہے۔ حمیرا، رائٹرز۔

سوال: ہیلو جناب وزیر خارجہ۔ میں رائٹرز سے حمیرا پاموک ہوں۔ میں آپ سے ایران کے بارے میں سوال کرنا چاہتی ہوں۔ انہوں ںے کہا کہ وہ چاہیں گے کہ امریکہ پہلے تمام پابندیاں اٹھائے جبکہ آپ نے کہا کہ انہیں مکمل تعاون کی جانب واپس آنا ہو گا۔ ایسے میں آپ کیسے مصالحت کریں گے اور ہمیں بات چیت شروع ہونے کی توقع کب رکھنی چاہیے اور امریکہ کی جانب سے اس گفت و شنید کی قیادت کون کرے گا؟

اگر اجازت ہو تو میں پوچھنا چاہوں گی کہ آپ نے جائزوں کی بات کی۔ جہاں تک شنجیانگ میں ویغور باشندوں کا معاملہ ہے تو اپنی توثیقی سماعت کے موقع پر آپ نے یہ تصدیق کی تھی کہ وہاں نسل کشی ہو رہی ہے، مگر آج لنڈا تھامس-گرینفیلڈ نے کہا کہ دفتر خارجہ اس تعین کا جائزہ لے رہا ہے۔ کیا یہ محض طریق کار کا معاملہ ہے یا اس تعین کی بابت مختلف آرا پائی جاتی ہیں؟ کیا ہمیں اس دوران بعض مزید تعزیری اقدامات کی توقع بھی رکھنی چاہیے؟ شکریہ۔

وزیر خارجہ بلنکن: سفیر تھامس-گرینفیلڈ نے جو کچھ کہا وہ میری نظر سے نہیں گزرا اسی لیے میں اس پر بات نہیں کر سکتا۔ لیکن میں اپنی بات پر قائم ہوں کہ ویغور باشندوں کی نسل کشی ہوئی اور میں نے اپنا یہ بیان تبدیل نہیں کیا۔

جہاں تک ایران کا معاملہ ہے تو صدر بائیڈن نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر ایران جے سی پی او اے کے تحت اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح عہدہ براہ ہوتا ہے تو امریکہ بھی یہی کچھ کرے گا ار پھر ہم ایسے اقدامات کو اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ ایک طویل مدتی اور مضبوط معاہدے نیز ایران کے ساتھ تعلقات میں گہرے مسائل کا باعث بننے والے دیگر متعدد امور سے نمٹنے کے لیے بنیاد کے طور پر استعمال کریں گے۔

تاہم ابھی ہم اس مرحلے سے بہت دور ہیں۔ ایران بہت سی جگہوں پر تعاون نہیں کر رہا۔ اس میں کچھ وقت لگے گا، اگر وہ بروقت ایسا کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تبھی ہم یہ اندازہ لگائیں گے کہ آیا وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے۔ لہٰذا کم از کم اس وقت تو ہم اس مرحلے تک نہیں پہنچے۔ یہ بات کہ اگر ایران تعاون کی جانب واپس پلٹتا ہے تو ہم اس مسئلے پر اس کے ساتھ کیسے معاملہ کریں گے، میں اس بارے میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ ہم ماہرین کی ایک مضبوط ٹیم بنائیں گے اور اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر غور کریں گے۔

ویسے میں ہر جگہ یہ بات کرتا ہوں کہ: میں ان تمام معاملات میں اور ایسے ہر معاملے میں جس سے ہم نمٹ رہے ہیں یا جس کا ہماری خارجہ پالیسی کو سامنا کرنا ہے جو ایک بات اچھی طرح محسوس کرتا ہوں وہ یہ کہ، ہم تواتر سے اپنے مفروضوں اور متعلقات پر سوالات اٹھا رہے ہیں، ہم چند مخصوص لوگوں کی سوچ کے اسیر نہیں ہیں، ہم مناسب طور سے بیرونی طرف سے اپنا ناقدانہ جائزہ لیتے اور اپنے اقدامات پر غور کرتے ہیں خواہ یہ آپ کی جانب سے ہو یا ایسے لوگوں کی جانب سے جو ہماری پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتے۔

اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ آپ ممکنہ طور پر ایران کے حوالے سے اور ہمیں درپیش کسی بھی دوسرے مسئلے کی بابت آگے بڑھتے ہوئے ہمیں یہی کچھ کرتا دیکھنے کی توقع رکھ سکتے ہیں۔ شکریہ۔

مسٹر پرائس: (ناقابل سماعت) دی نیویارک ٹائمز کی لارا جیکس بات کریں گی۔

سوال: شکریہ۔ جناب وزیر خارجہ آپ کو مبارک ہو۔

وزیر خارجہ بلنکن: لارا، آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔

سوال: آپ نے بھی، آپ نے دنیا میں امریکہ کی قیادت بحال کرنے سے متعلق بہت سی باتیں کیں مگر امریکہ کے اتحادی یہ سوچتے ہیں کہ آپ جو قدم بھی اٹھائیں گے وہ چار سال بعد واپس لیا جا سکتا ہے اور یہ ایک ایسا چکر ہے جس کے باعث امریکہ کی ساکھ پر طویل مدتی اعتبار قائم نہیں رہے گا۔ چنانچہ کوئی ایک انتظامیہ دنیا کو کیسے یہ یقین دلا سکتی ہے کہ امریکہ پر اس کے وعدوں کی تکمیل کے معاملے میں اعتبار کیا جا سکتا ہے؟

وزیر خارجہ بلنکن: میں نے گزشتہ 24 گھنٹوں میں جو کام کیے ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ میں نے پہلے ہی فون پر بہت سا وقت دنیا کے بہت سے حصوں میں اپنے بعض قریب ترین اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ بات کرنے پر صرف کیا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ میں نے اس بات چیت سے جو نتیجہ حاصل کیا ہے وہ یہ کہ دوسرے ممالک کی شدید خواہش ہے کہ امریکہ واپس آئے اور ہمیں درپیش بہت سے مشترکہ مسائل پر ان کے ساتھ کام کرے اور اب تک میری تمام بات چیت میں یہ چیز قریباً بالکل واضح تھی۔ مجھے توقع ہے کہ آنے والے دنوں میں مجھے ایسا مزید سننے کو ملے گا۔

آپ نے جو نکتہ اٹھایا اس حوالے سے ایک بات یہ ہے کہ حقیقی طور پر ہم جو کچھ کر رہے ہیں جب اس کی بات ہو ــ اور صدر کئی مواقع پر یہ کہہ چکے ہیں ــ جب خارجہ پالیسی کی بات ہو تو امریکی عوام کی آگاہی پر مبنی رضامندی کے بغیر ایک پائیدار خارجہ پالیسی بنانا مشکل ہے۔ میرے خیال میں یہ آگاہی پر مبنی رضامندی کئی طریقوں سے ملتی ہے۔ ان میں ایک آپ کی جانب سے آتی ہے کیونکہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں بہت سے امریکہ اس سے آپ کے ذریعے آگاہی پاتے ہیں۔ یہ یقینی بنانا اور اس پر سوچنا لازمی طور سے اہم ہے کہ وہ مکمل طور سے آگاہ ہوں اور ہم جو کچھ کر رہے ہیں اس میں ان کی رضامندی شامل ہو۔

لیکن ہمارے نظام میں اس حوالے سے کانگریس کی آگاہی پر مبنی رضامندی لازمی اہمیت رکھتی ہے۔ کانگریس کے ارکان امریکی عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ ہماری پالیسیوں پر صلاح اور اپنی رضامندی دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ ہماری حکومت میں جو دیکھیں گے اس میں یہ بھی شامل ہو گا کہ یہ ان امور پر محض اختتامی لمحات میں نہیں بلکہ آغاز پر بھی کانگریس کے ساتھ ہر ممکن حد تک قریبی طور سے کام کرے گی۔ کیونکہ بالاآخر میرے خیال میں ان پالیسیوں کو پائیدار بنانے کے لیے ہمیں آخر میں نہیں بلکہ پیشگی کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اس ضمن میں ہمارے مابین اختلافات بھی سامنے آئیں گے۔ بعض اوقات ہمارا نکتہ نظر ایک دوسرے سے مختلف ہو گا۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم کانگریس کے ساتھ پیشگی کام کریں تو ہمارے پاس طویل مدتی پالیسیاں بنانے کا اچھا موقع ہے۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ ہم اس میں کس قدر کامیاب رہتے ہیں مگر میں ایسا کرنے کے لیے پرعزم ہوں۔

شکریہ۔

مسٹر پرائس: آپ کا بہت شکریہ۔

سوال: شکریہ۔

وزیر خارجہ بلنکن: آپ سبھی کا شکریہ۔

سوال: شکریہ۔

سوال: شکریہ

وزیر خارجہ بلنکن: میں آپ کو جلد اور اکثر دیکھنے کا متمنی ہوں۔

سوال: کیا آپ جلد کسی دورے پر جائیں گے؟

وزیر خارجہ بلنکن: جی، واقعی میں اس کا منتظر ہوں، مگر کل نہیں۔

سوال: ہم آپ کو ان الفاظ پر قائم رکھیں گے۔


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/secretary-antony-j-blinken-at-a-press-availability/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔

Secretary Antony J. Blinken at a Press Availability


This email was sent to stevenmagallanes520.nims@blogger.com using GovDelivery Communications Cloud on behalf of: Department of State Office of International Media Engagement · 2201 C Street, NW · Washington, DC · 20520 GovDelivery logo

No comments:

Page List

Blog Archive

Search This Blog

Rate cuts aren't an automatic “golden goose”

There’s ONE thing traders need to understand if they want to take advantage of Powell’s speech                               With the af...