Tuesday, August 19, 2025

Nvidias Silent Partners 2.0

AI chipmaking giant recently became the first $4 trillion company
Logo

Nvidias Silent Partners 2.0 AI chipmaking giant recently became the first $4 trillion company

وزیر خارجہ مارکو روبیو کی فاکس بزنس کے پروگرام سنڈے مارننگ فیوچرز میں ماریا بارٹیرومو سے بات چیت

Department of State United States of America

یہ ترجمہ امریکی دفترخارجہ کی جانب سے ازراہ نوازش پیش کیا جارہا ہے۔



امریکی محکمہ خارجہ
ترجمان کا دفتر
انٹرویو
17 اگست، 2025
واشنگٹن ڈی سی

سوال: اب امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو میرے ساتھ ہوں گے جو صدر ٹرمپ کے ہمراہ الاسکا بھی گئے اور وہ کل صدر ٹرمپ اور صدر زیلنسکی کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے موقع پر بھی موجود ہوں گے۔ جناب وزیر خارجہ، آج شام ہمارے ساتھ موجودگی پر آپ کا شکریہ۔

وزیر خارجہ روبیو: شکریہ۔ مجھے بات چیت کے لیے مدعو کرنے پر شکریہ۔

سوال: صدر ٹرمپ کی پوٹن کے ساتھ ملاقات جنگ بندی کے بغیر کیوں ختم ہوئی اور پوٹن کیا چاہتے ہیں؟

وزیر خارجہ روبیو: جی، میں یہاں چند باتیں کہوں گا۔ سب سے پہلے یہ کہ، اگر آپ کو یاد ہو، اس طرح کی ملاقات نہیں ہو سکتی اور ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اس ملاقات کے نتیجے میں کوئی معاہدہ ہو گا کیونکہ اس میں یوکرین کی نمائندگی نہیں تھی۔ یہ دو ممالک کے مابین جنگ ہے۔ یہ امریکہ کی جنگ نہیں۔ یہ یوکرین اور روس کی جنگ ہے۔ ہم نے اس میں ایک فریق یعنی روس سے ملاقات کی۔ ہم نے یوکرین سے بھی متواتر بات چیت کی ہے۔ ہم کل ان سے اور اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ بالمشافہ ملاقات کریں گے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس بات چیت میں کچھ پیش رفت ہوئی۔

جہاں تک مسائل کی وسعت کو کم کرنے کی بات ہے، اور اب صرف مشکل مسائل باقی رہ گئے ہیں، جیسا کہ علاقائی حدود کیا ہوں گی، طویل مدتی سلامتی کی ضمانت کیا ہو گی اور یوکرین کا عسکری اتحاد کس ملک کے ساتھ ہو گا، یہ مشکل چیزیں ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے مسائل کے دائرے کو محدود کرنے میں پیش رفت کی ہے البتہ اب بھی بہت سا کام باقی ہے۔

اس کی کوئی وجہ ہے کہ یہ جنگ ساڑھے تین سال سے کیوں جاری ہے۔ اگر اُس وقت صدر ٹرمپ حکومت میں ہوتے تو یہ جنگ شروع ہی نہ ہوتی، لیکن یہ انہیں ورثے میں ملی ہے اور اب وہ امن قائم کرنے کے لیے ہرممکن کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے امن کو اپنی حکومت کی ترجیح بنایا ہے جیسا کہ آپ نے ان تمام امن معاہدوں کی صورت میں دیکھا جو ہم نے دنیا بھر میں کیے ہیں۔ یہ ان میں مشکل ترین معاملہ ہے۔ سبھی یہ بات جانتے ہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ دنیا میں واحد شخصیت ہیں جن کے پاس ایسا کرنے کا موقع ہے۔

دیکھیے، شاید ایک دن میں امن قائم نہ ہو سکے۔ ہم نہیں جانتے۔ لیکن، اگر یہ ممکن ہے تو صدر ٹرمپ واحد شخصیت ہیں جو ایسا کر سکتے ہیں اور اسی لیے سبھی ان سے پوچھ رہے ہیں۔ وہ ان سے پوٹن کے ساتھ ملاقات کے لیے کہہ رہے ہیں اور انہیں کل یہاں آنے اور صدر زیلنسکی سے ملاقات میں آئندہ قدم کے حوالے سے بات چیت کے لیے کہہ رہے ہیں۔

سوال: ایک یورپی سفارت کار نے فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ صدر ٹرمپ نے پوٹن کی اس تجویز کے لیے حمایت کا اظہار کیا کہ روس کی لوہانسک، دونیسک اور ڈونباس کے پورے علاقے پر مکمل عملداری ہونی چاہیے۔ کیا آپ اس اقدام کی حمایت کرتے ہیں؟

وزیر خارجہ روبیو: نہیں، سب سے پہلی بات یہ کہ مجھے علم نہیں کس نے آپ کو یہ بتایا لیکن وہ نہیں جانتے کہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔ میر مطلب یہ ہے کہ صدر نے کہا کہ علاقائی حدود اور ایسی دیگر چیزوں کے بارے میں فیصلہ صدر زیلنسکی نے کرنا ہے۔ ان چیزوں پر یوکرین نے اتفاق کرنا ہے۔ صدر ٹرمپ مسائل میں کمی لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور پھر دیکھا جائے گا کہ آیا ہم اس جنگ کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

دیکھیے، یہ جنگ مزید بدترین صورت اختیار کر جائے گی۔ اس میں بہتری نہیں آئے گی۔ آپ نے حملوں میں آنے والی حالیہ شدت کی صورت میں اس کا مشاہدہ کیا ہو گا۔ اب روس کی معیشت مکمل طور پر جنگی بنیاد پر منتقل ہو چکی ہے۔ یوکرین کا بھی یہی معاملہ ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے پر شدید حملے کر رہے ہیں اور جنگی حالات مزید بگڑ جائیں گے۔ ان میں بہتری نہیں آئے گی۔

لہٰذا وہ اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے ہرممکن کوشش کر رہے ہیں لیکن جو لوگ باہر بیٹھ کر ایسی باتیں کر رہے ہیں جن کے بارے میں انہیں کچھ معلوم نہیں، ان احمقانہ لیکس اور اس طرح کی چیزوں کے ساتھ، وہ سب صرف اہم دکھائی دینا چاہتے ہیں۔ انہیں علم نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ صدر کی سوچ بہت واضح ہے۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ زیلنسکی کیا ماننے کو تیار ہوں گے ، یہ فیصلہ خود انہی کو کرنا ہے۔ وہی فیصلہ کریں گے کہ انہں کیا دینا ہےاور اس کے بدلے کیا لینا ہے اور ان کا مطالبہ کیا ہو گا۔

دونوں فریقین، لیکن یہاں میں آپ کو ایک بات یقین سے کہہ سکتا ہوں۔ دو متحارب دھڑوں کے مابین اس وقت تک امن معاہدہ نہیں ہو سکتا جبکہ تک دونوں کچھ لو اور کچھ دو پر تیار نہ ہوں۔ درست؟ بصورت دیگر، اگر ایک فریق وہ سب کچھ حاصل کر لے جو وہ چاہتا ہے تو پھر امن معاہدہ نہیں ہو گا۔ اسے دوسرے کے لیے ہتھیار ڈالنا کہیں گے۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ ایسی جنگ ہے جو ہتھیار ڈالنے کی بنیاد پر جلد ختم ہو جائے گی۔

اسی لیے، یہ ایک مشکل کام ہے۔ میرا مطلب ہے کہ دونوں فریقین کو اکٹھا کرنا آسان نہیں۔ ہم نے کچھ پیش رفت کی ہے اور ہم نے اسے آگے بڑھانا ہے۔ بالآخر تینوں رہنماؤں، زیلنسکی، پوٹن اور صدر ٹرمپ کی ملاقات ہو گی جہاں ہم اسے حتمی صورت دے سکتے ہیں۔ لیکن وہاں تک پہنچنے سے پہلے ہمیں حالات کو اس کے لیے سازگار بنانا ہو گا۔

جناب وزیر خارجہ: یورپ کیا چاہتا ہے؟

وزیر خارجہ روبیو: دیکھیے، میں سمجھتا ہوں کہ بالآخر طویل مدتی طور پر یورپ جو کردار ادا کر سکتا ہے وہ سلامتی کی ان ضمانتوں کے حوالے سے ہو گا جن کے بارے میں یوکرین بات کرتا چلا آیا ہے۔ انہیں اس حوالے سے اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ میں بھی سمجھتا ہوں کہ بعض اوقات بات چیت میں یورپی ممالک بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں کہ کون سی رعایات دی جا سکتی ہی اور یوکرین کیا لچک دکھا سکتا ہے۔

لہٰذا، یہی وہ کردار ہے جو انہوں نے اب تک ادا کیا ہے۔ صدر نے انہیں یہاں آنے کی دعوت دی۔ انہوں نے صدر زیلنسکی سے سوموار کو یہاں آنے اور یورپی رہنماؤں کو ساتھ لانے کے لیے کہا تاکہ بات چیت میں متعدد سربراہان مملکت موجود ہوں جو کل یہاں صدر ٹرمپ کی دعوت پر یہ دیکھنے آئیں گے کہ آیا ان میں سے بعض نکات پر کچھ پیش رفت ہو سکتی ہے۔

صدر ٹرمپ نے الاسکا سے واپس آتے ہوئے ان میں کئی رہنماؤں سے ہوائی جہاز میں بات کی۔ میرے خیال میں یہ ہمارے وقت کے مطابق صبح دو بجھے تھے اور ان کے وقت کے مطابق غالباً صبح کے آٹھ یا نو بجے کا وقت تھا۔ گزشتہ روز میں نے بھی مختلف ممالک کے مشیران قومی سلامتی سے ٹیلی فون پر بات چیت کی۔

اسی لیے ہمارے پاس آئندہ چند روز کے لیے کام کا ایجنڈا موجود ہے اور ہم ان چیزوں پر کچھ وقت سے بات چیت کرتے چلے آ رہے ہیں اور ہم نے پہلے بھی ان سے بات کی ہے۔ الاسکا کی ملاقات سے قبل ہمارے ان کے ساتھ کئی اجلاس اور بات چیت کے کئی ادوار ہو چکے ہیں۔ اسی لیے وہ یہاں نہایت تعمیری کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن بالآخر اگر امن معاہدہ ہوتا ہے تو صرف صدر ٹرمپ ہی اسے ممکن بنا سکتے ہیں۔

سوال: کیا یورپ اب بھی روس سے تیل خرید رہا ہے؟

وزیر خارجہ روبیو: اگر آپ اس تیل کو دیکھیں جو چین کو جا رہا ہے اور جسے صاف کیا جا رہا ہے، اس کا بڑا حصہ یورپ میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ یورپ اب تک روس سے قدرتی گیس بھی خرید رہا ہے۔ کئی ممالک اس پر اپنا انحصار ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اپنی پابندیوں کے حوالے سے یورپ ہی مزید اقدامات کر سکتا ہے۔ وہ ہمیشہ پابندیوں کی بات کرتے ہیں اور انہوں نے پابندیوں کا پیکیج بھی تیار کیا ہے اور ایک اضافی پیکیج بھی جلد آ رہا ہے۔ لہٰذا، ہمارے لیے اہم ترین بات یہ ہے کہ یورپ سلامتی کی ضمانتیں لینے کے حوالےسے تعمیری کردار ادا کر سکتا ہے جس سے یوکرین کو دیگر امور پر معاہدہ کرنے میں سہولت مل سکتی ہے۔

سوال: میرا مطلب ہے، کیا یہ یورپ پر پابندیاں عائد کرنے یا اسے سزا دینے کا بڑا ذریعہ نہیں بنے گا کیونکہ وہ روس سے بدستور تیل اور گیس خرید رہا ہے۔ کیا ایسا کوئی امکان زیر غور ہے؟

وزیر خارجہ روبیو: میں یورپ کے بارے میں براہ راست نہیں جانتا، یقیناً، لیکن ظاہر ہے کہ ثانوی پابندیوں کے بھی کچھ اثرات ہوتے ہیں۔ اگر آپ کسی ملک پر ثانوی پابندیاں عائد کریں، جیسا کہ چین کو روس کے تیل کی فروخت پر، تو اس کے بڑے نتائج ہو سکتے ہیں۔ چین اس تیل کو صرف صاف کرتا ہے۔ اس کے بعد یہ تیل عالمی منڈی میں فروخت کیا جاتا ہے اور جو بھی یہ تیل خریدے گا وہ اس کی زیادہ قیمت ادا کرے گا۔ اگر یہ تیل نہ ہوتا تو ان ممالک کو اس کا کوئی متبادل تلاش کرنا پڑتا۔ اسی لیے، ہم سن چکے ہیں جب آپ سینیٹ کے اس بل کی بات کرتے ہیں جہاں چین اور انڈیا پر سو فیصد ٹیرف عائد کرنے کی بات ہوئی، ہم نے متعدد یورپی ممالک سے سنا جن میں بعض کو تشویش تھی کہ یہ کیا ہے۔

لیکن دیکھیے، میں اس معاملہ پر یورپی ممالک کے ساتھ ادلے کا بدلہ والی بات نہیں کروں گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ ہمیں یوکرین کے معاملے میں مدد دینے میں نہایت تعمیری کردار ادا کر سکتے ہیں اور صدر انہیں ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ صدر نے پوٹن سے ملاقات کے فوری بعد ٹیلی فون پر سب سے پہلے نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روتے سے ملاقات کی جو کل یہاں ہوں گے۔ ہم اس معاملے پر ان کے ساتھ متواتر رابطوں میں ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ صدر نے فریقین کو اکٹھا کرنےکے لیے غیرمعمولی کام کیا ہے تاہم اب بھی بہت کچھ کرنا باق ہے۔ جیسا کہ صدر نے کہا کہ جب تک فریقین طے نہ کر لیں اس وقت تک کوئی معاہدہ نہیں ہو سکتا۔ یہ آسان معاملہ نہیں۔ یہ جنگ صدر ٹرمپ کے دور میں شروع نہیں ہوئی۔ جیسا کہ آپ نے الاسکا میں پریس کانفرنس میں سنا ہو گا، اگر صدر ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں ہوتے تو یہ جنگ شروع ہی نہ ہوتی۔ انہیں یہ تین سالہ جنگ ورثے میں ملی اور اب وہ اسے سلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ اگر اسے روکا نہ گیا تو یہ مزید بدترین اور طویل ہو جائے گی۔ ایسے میں مزید ہزاروں لوگ ہلاک و زخمی ہوں گے۔

سوال: کیا آپ ہمیں اس معاملے میں امریکہ کی سوچ کے حوالے سے کسی ٹائم لائن پر وضاحت فراہم کر سکتے ہیں؟ میرا مطلب ہے کہ، یقیناً اس وقت کوئی جنگ بندی نیہں ہوئی۔ اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ کیا ہم مزید قتل و غارت دیکھتے رہیں گے؟

وزیر خارجہ روبیو: نہیں، دیکھیے، کسی نہ کسی مرحلے پر یہ فیصلہ کرنا ضروری ہوگا کہ آیا امن معاہدہ ممکن ہے یا نہیں۔ اگر کسی وقت یہ واضح ہو جائے کہ دونوں فریق اس قدر فاصلے پر ہیں اور اپنی جگہ اس قدر جم کر بیٹھے ہیں کہ ہم امن معاہدے کے قریب نہیں پہنچ پاتے تو پھر صدر کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اس میں مزید کتنا وقت لگائیں اور اس کے بعد وہ کون سے اقدامات اٹھائیں گے۔

لیکن میں چاہتا ہوں کہ سبھی یہ سمجھیں کہ اگر صدر ٹرمپ کل صبح جاگنے کے بعد یہ فیصلہ کریں کہ وہ روس پر سخت اور سنگین پابندیاں عائد کریں گے تو چند گھنٹوں کے لیے لوگوں کو یہ بات اچھی محسوس ہو گی لیکن بنیادی طور پر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ بات چیت ختم ہو گئی ہے اور آئندہ ایک یا ڈیڑھ سال تک کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔

دنیا میں کوئی اور نہیں جو پوٹن سے بات کر سکے، درست؟ پوٹن میکخواں سے ملاقات نہیں کریں گے۔ وہ برطانیہ کے ساتھ بھی ملاقات نہیں کریں گے اور میں ان رہنماؤں کے لیے نہایت احترام سے یہ بات کر رہا ہوں۔ یہ تمام رہنما انہیں مذاکرات کی میز پر نہیں لا سکیں گے۔ دنیا میں صرف ایک ہی رہنما ہے جو دونوں فریقین کو اکٹھا بٹھا سکتا ہے اور وہ صدر ٹرمپ ہیں۔ جب روس پر مزید پابندیاں عائد کی جائیں تو پھر ان کے پاس یہ کردار نہیں رہے گا۔ بدقسمتی سے ہم اس مقام تک پہنچ سکتے ہیں، لیکن اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ امن مذاکرات ممکن نہیں ہوں گے، اور یہ بہت افسوسناک ہوگا کیونکہ اس کے حقیقی اثرات یہ ہیں کہ جب ہم یہاں ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے ہیں، اس بارے میں ٹی وی پر بات چیت  کر رہے ہیں اور امریکی سیاست میں یہ سب ہو رہا ہے جبکہ وہاں لوگ آج میدان جنگ میں اور یوکرین کے شہروں میں ہلاک و زخمی ہو رہے ہیں، محاذ جنگ پر حتیٰ کہ روس میں بھی۔ اس وقت جب ہم یہ بات کر رہے ہیں تو اس جنگ سے وہ لوگ بھی متاثر ہو رہے ہیں جن کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔

مجھے لگتا ہے کہ ہم نہایت خوش قسمت اور بابرکت ہیں اور ہمیں اس پر شکر گزار ہونا چاہیے کہ ہمیں ایسا صدر ملا ہے جس نے امن اور امن کے حصول کو اپنی حکومت کی ترجیح بنایا ہے۔ ہم نے یہ کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کے تنازع میں دیکھا ہے، انڈیا اور پاکستان کی جنگ میں دیکھا ہے، روانڈا اور کانگو کے معاملے میں دیکھا ہے اور ہم دنیا بھر میں امن لانے کے لیے تمام مواقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔

سوال: آپ کل صدر زیلسنکی کو کیا پیشکش کر سکتے ہیں؟

وزیر خارجہ روبیو: میں سمجھتا ہوں کہ کل ہونے والی بات چیت کا بیشتر حصہ اس بات پر مرکوز ہوگا کہ یوکرین سلامتی کے حوالے سے کس طرح کی ضمانتیں چاہتا ہے، کیونکہ یوکرین یہ چاہتا ہے کہ جنگ کیسے ختم ہو گی۔ یہ کیسے یقینی بنایا جائے کہ ایسا دوبارہ نہیں ہو گا اور دو یا تین سال کے بعد روس واپس نہیں آئے گا؟ وہ ایسی ضمانتیں چاہتے ہیں جو انہیں اپنے تحفط یا مستقبل میں ایسی جنگ کو روکنے میں مدد دیں۔

وہ ضمانتیں کس طرح کی ہوں گی، یہی وہ تفصیلات ہیں جن پر کل ہم بیشتر وقت صرف کریں گے۔ کل ہم نے مختلف یورپی ممالک کے مشیران قومی سلامتی کے ساتھ اس معاملے پر طویل بات چیت کی تھی۔ کچھ کام پہلے ہی کیا جا چکا ہے، لیکن اب ہم اس مرحلے میں ہیں جہاں ہمیں اس حوالے سے مزید تفصیلات تیار کرنا ہوں گی، اور پھر بالآخر انہیں روس کو پیش کرنا ہوگا اور اسے انہیں قبول کرنے پر راضی کرنا ہو گا۔ لیکن سب سے پہلے ہمیں اپنی تیاری مکمل کرنا ہے۔

سوال: امریکہ سلامتی کے حوالے سے کس طرح کی ضمانتیں دینے کے لیے تیار ہے؟

وزیر خارجہ روبیو: یہ کل ہونے والی بات چیت کا حصہ ہو گا۔ آخرکار، حقیقت یہ ہے کہ سلامتی کی کوئی بھی ضمانت، یورپی ممالک بہت کچھ کر سکتے ہیں اور بہت کچھ پیش کر سکتے ہیں جو کہ بہت بڑی رعایت ہو گی۔ اگر صدر نے امریکہ کی طرف سے سلامتی کی ضمانت دینے کی پیشکش کی تو یہ بہت بڑا قدم ہو گا۔ یہ فیصلہ انہی کا ہو گا۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگ اسے سمجھیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہی  تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ امن کے لیے کس قدر شدت سے تیار ہیں اور وہ امن کی کتنی قدر کرتے ہیں کہ وہ ایسی رعایت دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔ لیکن آخر میں یہ فیصلہ صدر کو ہی کرنا ہو گا۔

انہی موضوعات پر ہم کل بات کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم ان چیزوں پر چھ یا سات گھنٹے صرف کریں گے، شاید اس سے بھی زیادہ، اور اس مرحلے تک پہنچیں گے جہاں ہمارے پاس قدرے مزید ٹھوس منصوبہ ہو گا۔ ہم نے اس پر پہلے ہی کافی کام کیا ہے، لیکن کچھ مزید کام کی ضرورت ہے، اس سے پہلے کہ ہم یہ کہہ سکیں کہ ہمارے پاس سلامتی سے متعلق ضمانتوں کا ایک ایسا منصوبہ ہے جو ہمیں متحد کرتا ہے۔

سوال: اس معاملے میں امریکہ دیگر کون سے معاشی دباؤ سے کام لے سکتا ہے؟ میرا مطلب ہے کہ، آپ کے پاس ثانوی پابندیاں ہیں اور آپ نے کہا کہ شاید چین کے ساتھ بھی کچھ ہو سکتا ہے۔ روس کی دہشت گردی کے سرپرست ملک کی حیثیت سے نامزدگی کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے جس پر لنڈسے گراہم کام کرتے رہے ہیں؟

وزیر خارجہ روبیو: جی ہاں، یہ نامزدگیاں وقتاً فوقتاً مفید ثابت ہو سکتی ہیں، لیکن اس مخصوص صورت حال میں ان سے جنگ کا رخ تبدیل نہیں ہو گا۔ دیکھیے، کیا امریکہ روسی معیشت پر مزید دباؤ ڈال سکتا ہے، جیسا کہ بینکاری کے شعبے، تیل کی کمپنیوں اور اس طرح کی چیزوں کو نشانہ بنا کر؟ بالکل ہم ایسا کر سکتے ہیں اور بدقسمتی سے یہ انتخاب ہمیشہ ہمارے سامنے موجود ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات سمجھنا ہو گی کہ یہ اقدام لوگوں کو کچھ وقت کے لیے اچھا محسوس ہو گا اور اس کے روس پر طویل مدتی اثرات ہوں گے لیکن قلیل مدتی طور پر اس کا مطلب بات چیت کا خاتمہ ہو گا اور ہم مزید ڈیڑھ یا دو سال کے لیے جنگ، موت اور تباہی میں پھنسے رہیں گے۔ اس کا یہی مطلب ہے۔

ہو سکتا ہے بدقسمتی سے ہم اس مقام تک پہنچ جائیں۔ لیکن ہم اس صورتحال سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم روس کو ہر ممکن موقع دینا چاہتے ہیں کہ وہ کچھ ایسی چیز پر رضامند ہو جو یوکرین کے لیے قابل قبول ہوں اور ہم یہی کچھ کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس پر صدر کو سراہا جانا چاہیے کیونکہ انہوں نے یہ سب کچھ کرنے کی کوشش کی ہے۔ کسی اور نے یہ کوشش نہیں کی۔ جو بائیڈن یہ نہیں کر سکتے تھے۔ دنیا میں کوئی اور رہنما ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ اور میں کھل کر کہوں تو صدر ٹرمپ ایسا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

دیکھیے، یوکرین کی جنگ کو بہت زیادہ توجہ ملتی ہے اور میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ غیر متعلقہ معاملہ ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ نہایت المناک ہے۔ لیکن یوکرین میں امن ہو یا نہ ہو اس سے امریکہ میں روزمرہ زندگی پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا اور یہ ایک حقیقت ہے۔ ہمارے اندرون و بیرون ملک بہت سے مسائل ہیں جن پر ہم توجہ دے رہے ہیں۔ لیکن صدر نے ایک ایسی جنگ کو روکنے پر بہت سا وقت صرف کیا ہے جو کسی اور براعظم میں دو ممالک کے درمیان ہو رہی ہے۔ میرا مقصد یہ بتاتا ہے کہ وہ امن کو کس قدر اہمیت دیتے ہیں۔ ہمیں شکر گزار اور احسان مند ہونا چاہیے کہ ہمارے پاس ایک ایسا صدر ہے جو امن کا صدر ہے، جو امن کی قدر کرتا ہے اور اپنی طاقت سے جنگوں کے خاتمے اور نئی جنگوں کی روک تھام کے لیے کام لینا چاہتا ہے۔

سوال: کیا امریکہ کمیاب معدنیات سے متعلق معاہدے کے باعث اس سے براہ راست متاثر نہیں ہوا؟ یہ معاہدہ کس قدر اہم ہے اور کیا پوٹن نے اس علاقے میں بمباری سے اس معاہدے کو پہلے ہی نقصان نہیں پہنچا دیا؟

وزیر خارجہ روبیو: پہلی بات یہ کہ معاہدہ اہم ہے، لیکن امریکہ کے پاس نایاب معدنیات کے دیگر ذرائع بھی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ معاہدہ یوکرین کے لیے بہت اہم ہے، خاص طور پر تعمیر نو اور بحالی کے حوالے سے اس کی خاص اہمیت ہے۔ جنگ کے بعد یوکرین میں امریکی شراکت داروں کا ہونا اس کے لیے بہت فائدہ مند ہو گا۔ ظاہر ہے کہ یہ ہمارے لیے بھی بہت اچھا ہو گا۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ صرف یہ معاہدہ ہی ہمیں جنگ روکنے کے لیے کوششوں کا جواز فراہم کرتا ہے۔ ہم امن کے عمل کی حمایت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم جنگ کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یوکرین میں ہمارے کوئی مفادات نہیں ہیں۔ میں جو کہہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ نے اس جنگ پر جو وقت اور توانائی صرف کی ہے، اس کا موازنہ دنیا کے دوسرے مسائل سے کیا جانا چاہیے جنہیں ہماری توجہ کی ضرورت ہے۔ صدر ٹرمپ واقعی تعریف کے لائق ہیں کہ انہوں نے اس قدر مشکل اور پیچیدہ جنگ کو ختم کرنے کی کوشش میں اس قدر وقت اور توانائی صرف کی ہے۔ یہ بہت مشکل جنگ ہے، اور اس کا خاتمہ کرنا آسان نہیں۔

روس یہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس برتری ہے اور وہ آگے بڑھ رہا ہے۔ اسے لازمی طور سے دباؤ کا سامنا نہیں ہے۔ یوکرین سمجھتا ہے کہ اس پر حملہ کیا گیا، اسے نقصان پہنچایا گیا اور جو کچھ روسیوں نے کیا ہے وہ انتہائی خوفناک ہے اور اسے روکنا چاہیے۔ اس طرح، دونوں طرف کے لوگ کافی حد تک اپنی جگہ پر جمے ہیں۔ ہم نے یوکرین پر نہیں بلکہ روس پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ ہم روس کو اسلحہ فراہم نہیں کرتے، ہم یوکرین کو اسلحہ اور مدد فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح امریکہ نے اس حوالے سے پہلے ہی بہت سے اقدامات کیے ہیں۔

صدر ٹرمپ یہ دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس جنگ کو کیسے ختم کیا جائے، اسے کیسے روکا جائے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ شاندار بات ہے کہ ہمیں ایسا صدر ملا ہے جو امریکہ کی طاقت کو استعمال کرنے کے لیے تیار ہے اور یہاں ہمارا یہی مقصد ہے۔ یہ مقصد جنگ جیتنا نہیں بلکہ اسے ختم کرنا ہے۔

سوال؛ کیا آپ اس جنگ کو روکنے کے لیے ہر طرف سے روس پر دباؤ ڈالنا جاری رکھیں گے؟ اب کس طرح دباؤ ڈالا جائے گا؟

وزیر خارجہ روبیو: امن معاہدہ کرنے کے لیے طرفین کو کچھ قربانیاں دینا ہوں گی۔ ظاہر ہے، روس کو بھی قربانیاں دینا ہوں گی۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک فریق جو چاہے حاصل کر لے۔ اگر مذاکرات میں ایک فریق کو وہ سب کچھ مل جائے جو وہ چاہتا ہے تو یہ امن معاہدہ نہیں کہلائے گا، بلکہ یہ ہتھیار ڈالنے کی شرائط ہوں گی۔ اور مجھے نہیں لگتا کہ آپ جلد دونوں طرف سے ہتھیار ڈالنے کا منظر دیکھیں گے۔

لہٰذا، حقیقت یہ ہے کہ امن معاہدہ کرنے کے لیے یوکرین کو وہ چیزیں قبول کرنی ہوں گی جو اسے پسند نہیں اور روس کو بھی وہ قبول کرنا ہو گا جو اسے پسند نہیں ہے۔

سوال: ٹھیک ہے۔

وزیر خارجہ روبیو؛ ہمیں فریقین کو ایک دوسرے کو رعایات دینے کے لیے صدارتی اثرورسوخ استعمال کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔

سوال: کیا پوٹن نے اس معاملے میں امریکہ کے ساتھ ممکنہ جوہری معاہدے کا ذکر کیا؟

وزیر خارجہ روبیو: نہیں۔ نہیں، بات چیت تقریباً مکمل طور پر، میں کہوں گا کہ 99 فیصد بات چیت صرف جنگ اور اسے ختم کرنے کے طریقوں کے بارے میں تھی اور اس میں روس نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ لوگ اس بالمشافہ بات چیت کی اہمیت کو کم نہ سمجھیں۔ ان کے درمیان ٹیلی فون پر کئی مرتبہ بات ہو چکی ہے لیکن ذاتی ملاقات سے بہتر طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ ایک فریق مسائل کو کس قدر شدت سے محسوس کرتا ہے۔ ہم نے یوکرین کے نمائندوں کے ساتھ درجنوں ملاقاتیں کی ہیں لیکن روس کے صدر پوٹن کو دیکھا جائے تو یہ اس سطح پر ہماری پہلی ملاقات تھی۔ امید ہے کہ آئندہ ملاقات میں صدر زیلنسکی بھی موجود ہوں گے اور فریقین امن معاہدے کے حتمی مرحلے کے قریب پہنچ چکے ہوں گے۔

سوال: جناب وزیر خارجہ، ہم کل آپ کے لیے کامیابی کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہاں آنے پر آپ کا بیحد شکریہ۔

وزیر خارجہ روبیو: شکریہ۔

سوال: وزیر خارجہ مارکو روبیو


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/releases/2025/08/secretary-of-state-marco-rubio-with-maria-bartiromo-of-fox-business-sunday-morning-futures-2/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔


This email was sent to stevenmagallanes520.nims@blogger.com using GovDelivery Communications Cloud on behalf of: Department of State Office of International Media Engagement · 2201 C Street, NW · Washington, DC · 20520 GovDelivery logo

Nvidias Silent Partners 2.0

AI chipmaking giant recently became the first $4 trillion company
Logo

Nvidias Silent Partners 2.0 AI chipmaking giant recently became the first $4 trillion company

Can you believe the FBI Director?

He called and said that the truth will come out!  ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌
MAGA! >

THE TRUTH IS OUT — AND EVERYONE INVOLVED IS PANICKING.

MAGA! >

I just got the call.


My FBI Director, Kash Patel, found what they tried to BURN. 


But the truth is on borrowed time. You need to read this memo NOW, before they slam the door shut.


READ MEMO HERE

Contributions to Trump National Committee JFC Inc. are not deductible for federal income tax purposes. All contributions are subject to the limits and prohibitions of the Federal Election Campaign Act. Contributions from corporations, foreign nationals (i.e., without "green cards"), federal government contractors, and other federally impermissible sources are strictly prohibited. Contributions made in the name of, or refunded by, any other person are unlawful.



You are receiving this email at stevenmagallanes520.nims@blogger.com


Trump National Committee JFC Inc., PO Box 509, Arlington, VA 22216


donaldjtrump.com


If you'd like to change your subscription status follow this link.


Privacy Policy

Page List

Blog Archive

Search This Blog

LIVE trading, education AND $50k competition

Liberty Through Wealth  ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ ‌...